Maktaba Wahhabi

661 - 676
تاسف سے حقائق نہیں بدل سکتے، انبالہ کیس میں انگریز کی نظروں نے کن حریت کے پروانوں پر ہاتھ اٹھایا؟ لاہور کے جیل خانہ میں منوں بیڑیوں کے بوجھ کن گلوں اور پاؤں کی زینت رہے؟ کبھی فرصت میں سن لینا بڑی ہے داستاں میری مجھے آپ کی تیزی سے دکھ ہوا، جب آپ اس داستان کو جانتے ہی نہیں، تو اس جوش میں کیوں آتے ہیں؟ امید ہے آپ تاریخ کے اس حصہ کو نہیں ہلائیں گے۔ رہے نام! تو آپ ہی سوچیں، آپ پہلے مسلمان تھے، پھر اہل سنت ہوئے، پھر حنفی ہوئے، اب دیوبندی ہیں۔ آئندہ معلوم نہیں کیا ہوں گے؟ اس ضمن میں ماتریدی، اشعری، قادری کے بعد شاید اشرفی اور کیا کیا بن جائیں؟! اللہ کے عطیے: علم، عقل، تفقہ، صحت، قوت، تیقظ، معاملہ فہمی، فراست، قوت تکلم اور حافظہ وغیرہ، یہ خدا تعالیٰ کے احسانات ہیں، جو اس نے نوع انسان میں ودیعت فرمائے ہیں۔ ہر انسان پر ان اوصاف کی نوازش فرمائی گئی، کوئی انسان ان سے محروم نہیں، لیکن پوری نوعِ انسان اس میں مساوی نہیں۔ انبیاء علیہم السلام سے عامۃ المسلمین تک، ملوک اور اصحاب ثروت سے عامۃ الناس تک ان انعامات سے بقدر تحمل مستفیض ہیں۔ مختلف طبقات ان انعامات الٰہیہ سے بہرہ ور ہیں۔ ﴿تِلْكَ الرُّسُلُ فَضَّلْنَا بَعْضَهُمْ عَلَىٰ بَعْضٍ﴾ (البقرۃ: 253) میں تفاوتِ مراتب اور اس فرق کی صراحت فرمائی ہے۔ ﴿نَرْفَعُ دَرَجَاتٍ مَّن نَّشَاءُ ۗ وَفَوْقَ كُلِّ ذِي عِلْمٍ عَلِيمٌ﴾ (یوسف: 76) میں علمی مراتب میں تفاوت کو ظاہر فرمایا ہے۔ باقی انعامات کا بھی یہی حال ہے۔ یہ کبھی نہیں ہوتا کہ ایک شخص مروجہ فقہ پڑھتا رہے، تو وہ فقیہ رہے، لیکن معاً جب وہ حدیث پڑھنا شروع کرے، تو فقہ اس سے رخصت ہو جائے۔ خود حنفی علماء جو عمر کا معتد بہ حصہ اس مروجہ فقہ میں صرف کر دیتے ہیں، معاملات میں انتہائی بے سمجھ ہوتے ہیں۔ وہ مروجہ متون اور شروح کو کتاب و سنت کی طرح مانتے ہیں۔ ہمارے یہ تقلید پسند حضرات یہاں حکیم اور عطّار کی مثال دے کر عموماً خاموش ہوتے ہیں، وہ مثال بھی فرق مراتب کی حد تک درست ہے، لیکن طبقات کی تقسیم کے لحاظ سے بالکل بے معنی ہے۔ مروجہ فقہاء اور فقہ کے ماہرین بھی عملاً عطّار ہی نظر آتے ہیں۔ ایک دیوبندی عالم نے ابن جوزی کی کتاب سے جو اوصاف کسی حدیث کے غلط کار طالب علم
Flag Counter