محسوس ہونا چاہیے تھا کہ محمل خالی ہے، چونکہ حدیث سے معلوم ہوتا ہے ساربان محسوس نہیں کر سکے، لہٰذا حدیث موضوع ہے۔ (مختصراً)
ازالہ:
یہاں تمنا صاحب نے بے خبروں کی طرح بے ضرورت اجتماعات کا سلسلہ قائم کر دیا ہے، حالانکہ حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا نے اس سوال کا جواب دے دیا ہے کہ عورتیں اس وقت ہلکی پھلکی تھیں۔ [1] جو سفر کی مشغولیت اور کوائف کو سمجھتا ہے اور مسافر کی نفسیات کو جانتا ہے، اسے حدیث کے سمجھنے میں کوئی دقت محسوس نہیں ہو گی۔ جس شخص نے حج کا سفر اونٹوں پر کیا ہے، شغدف پر سوار ہوا ہے، قافلہ کی روانگی کے وقت مسافروں اور ساربانوں کے شور و شغب کو دیکھا ہے، اسے حدیث کے سمجھنے میں ذرا بھی دقت محسوس نہیں ہو گی۔
آج بھی بوریاں گم ہوتیں، بستر ضائع ہوتے اور بھاری سامان تلف ہوتے دیکھا گیا ہے۔ ہمیں تو حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا کے اس واقعہ میں ذرا بھی تعجب محسوس نہیں ہوتا۔
آج جب بسیں، موٹریں چل رہی ہیں، چیزیں گرتی بھولتی رہتی ہیں۔ گنی ہوئی سواریاں بس سے بچھڑ جاتی ہیں۔ کراچی اور جدہ کی بندرگاہوں پر منوں بھولا بسرا ہوا مال ملتا ہے۔
معلوم نہیں عمادی صاحب کس دنیا میں بستے ہیں؟ پندرہ بیس سیر بوجھ کا بھولنا ان کی سمجھ میں نہیں آ رہا؟ رات میں اترنا، اپنے سامان کے پاس سونا، رفقاء کے ساتھ کھانا کھانا ایک حقیقت ہے اور یہ بھی حقیقت اور روزمرہ کے معمولات سے ہے۔ قضائے حاجت، نماز، وضو کے لیے آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم سے نہ اجازت کی ضرورت تھی، نہ اس میں کوئی تشویش ہے، نہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کا مزاج اس قدر ہلکا تھا کہ اٹھتے بیٹھتے رات چلتے محمل میں آوازیں دیتے رہیں کہ ہوشیار رہنا!
جو لوگ سفر کے عادی ہیں، وہ ان کوائف کو سمجھتے ہیں، اس میں کوئی بھی مشکل بات نہ تھی۔ مجھے ایسا معلوم ہوتا ہے عمادی صاحب کو یا تو ازدواجی زندگی سے سابقہ ہی نہیں پڑا یا پھر یہ تعلق کسی
|