کوئی سنجیدہ اور سمجھ دار نہیں جو ایسے مضامین کی اصلاح کرے!
پھر عمادی صاحب کا اسے خلاف دستور کہنا بھی غلط ہے۔ دستور دونوں طرح ہے، پردہ کے پابند گھروں میں اب بھی دستور ہے۔ مستورات شادیوں اور عام تقریبات کے وقت ڈولیوں میں بیٹھ جاتی ہیں، پھر کہار ڈولی اٹھا لیتے ہیں، یہی دستور محمل میں بھی ممکن ہے۔
سوم:
قرینہ نمبر (3) میں تمام رات محمل میں گزارنے وغیرہ احتمالات بالکل دیوانہ پن ہے۔ حدیث میں صراحت موجود ہے:
’’ فَقُمْتُ حِينَ آذَنُوا بِالرَّحِيلِ ‘‘
’’میں اس وقت قضاءِ حاجت کے لیے گئی، جب آپ نے کوچ کا اعلان فرما دیا۔‘‘
رہا صحابیات کا ساتھ جانا، جہاد کے سفروں میں جہاں کبھی بے پردہ ہونا پڑے، کبھی کندے پر مشکیزہ اٹھا کر زخمیوں کو پانی پلانا پڑے، مریضوں کی دیکھ بھال کرنا پڑے، یہ وضع داری محض تکلیف ہے، خصوصاً جب کہ جنگل میں لشکر سے زیادہ دور جانے کا سوال ہی پیدا نہیں ہوتا۔
تمنا صاحب کا قرینہ نمبر (3) بالکل ہوائی انداز کا ہے اور جذباتی۔ عملی زندگی میں اس کی کوئی وقعت نہیں۔ یہ کوئی تقریب نہیں کہ سہیلیاں جمع ہو کر جائیں۔ ایسے سفروں میں ہر آدمی اپنی ضروریات کا خود کفیل ہوتا ہے۔
چہارم:
قرینہ نمبر (2) تغیر الفاظ کے ساتھ نمبر (3) کا اعادہ ہے۔ اس کا جواب قرینہ نمبر (2) کے جواب میں عرض کر آیا ہوں کہ شریف گھرانوں میں اتنی بے اعتمادی نہیں ہوتی کہ روزانہ کے معمولات میں آمد و رفت کی اجازت اور اطلاع دی جائے۔ اگر اجازت کا یہ غیر معمولی التزام ہوتا تو شاید روایت مشتبہ ہوتی۔ حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا کے الفاظ:
’’فَقُمْتُ حِينَ آذَنُوا بِالرَّحِيلِ، فَمَشَيْتُ حَتَّى جَاوَزْتُ الْجَيْشَ، فَلَمَّا قَضَيْتُ شَأْنِي أَقْبَلْتُ إِلَى الرَّحْلِ، فَلَمَسْتُ صَدْرِي، فَإِذَا عِقْدٌ لِي مِنْ جَزْعِ أَظْفَارٍ قَدِ انْقَطَعَ، فَرَجَعْتُ فَالْتَمَسْتُ عِقْدِي، فَحَبَسَنِي ابْتِغَاؤُهُ ‘‘
|