Maktaba Wahhabi

604 - 676
بے بہرہ ہونے کے باوجود لکھتے ہیں، آپ کی ان مزخرفات کا اہل علم اور ماہرین پر کیا اثر ہو سکتا ہے؟ سید صاحب عالم ہیں، ان کی حدیث پر نظر ہے۔ انہوں نے ملخص طور پر حدیث کا مضمون واضح فرمایا۔ آپ کی نظر کو وہ دقت کہاں نصیب جو اللہ تعالیٰ نے سید صاحب کو عطا فرمائی۔ آپ نے سید صاحب کے ارشادات سمجھے بغیر ان پر تنقید شروع کر دی۔ طولِ مدعا کے لیے آپ نے سید صاحب اور مرزا حیرت کو عنوان بنا لیا۔ جب آپ کو امام زہری رحمہ اللہ پر اعتماد نہیں، تو سید صاحب رحمہ اللہ کی آپ کے نزدیک کیا اہمیت ہو گی؟ اس لیے ان کو درمیان میں لانے سے کیا فائدہ؟ وضعِ حدیث کا زمانہ: اس عنوان کے ضمن میں عمادی صاحب نے ایک عجیب تُک لگائی ہے۔ فرماتے ہیں: ’’حدیث افک کے وضع کا آغاز جنگ جمل کے بعد قاتلین حضرت عثمان رضی اللہ عنہ نے کوفہ اور بصرہ ہی میں کر دیا تھا اور یہ 50ھ یا 60ھ کے پس و پیش کا زمانہ ہے۔‘‘ بظاہر معلوم ہوتا ہے کہ عمادی صاحب نے کوئی اہم تاریخی انکشاف فرمایا ہے، یہاں تک کہ وضع حدیث کی تاریخ اور وقت تک کی نشاندہی فرما دی ہے، لیکن اس کا نہ کوئی حوالہ دیا ہے، نہ کوئی عقلی قرینہ اس پر قائم فرمایا، بلکہ گپ لگا کر مغالطہ میں ڈال کر خاموشی سے آگے بڑھ گئے ہیں۔ حقیقت یہ ہے کہ عمادی صاحب نے اس حدیث کی وضع کا بہتان رئیس المحدثین امام زہری رحمہ اللہ پر لگایا ہے اور امام زہری رحمہ اللہ کی پیدائش چونکہ 50ھ یا 51ھ کے پس و پیش ہے، اس لیے تمنا صاحب نے تُک سے یہ جوڑ لگا دیا کہ اس حدیث کے وضع کا یہی زمانہ ہے، لیکن عقل مند آدمی اتنا نہیں سمجھ سکا کہ زہری رحمہ اللہ نے پیدا ہوتے ہی حدیث کے وضع کا مشغلہ شروع کر دیا تھا؟ اگر زہری ایجنٹ تھے، تو اصل واضع کون ہیں؟ جنہوں نے امام زہری رحمہ اللہ کو ایجنسی دے کر وضع کا کاروبار شروع کیا اور وہ بھی 50ھ کے پس و پیش میں ہی پیدا ہوئے اور پیدا ہوتے ہی یہ کاروبار شروع کر دیا۔ اگر وہ لوگ پہلے سے موجود تھے، تو تمنا صاحب کا یہ اندازہ غلط ہو گا، پھر وضع کا زمانہ کئی سال پہلے ہونا چاہیے۔ قاتلین عثمان رضی اللہ عنہ کون تھے؟ کچھ شک نہیں کہ حضرت عثمان رضی اللہ عنہ کی شہادت امت کے لیے ایک حادثہ ہے۔ یہ سانحہ آنے والے حوادث کے لیے بنیاد ہے۔ پہلی اہم بے انصافی یہی ہے جو اس مقدس، بے قصور اور پاکباز
Flag Counter