Maktaba Wahhabi

202 - 676
تواتر کی قطعیت: تواتر کی قطعیت کو ہمارے حضرات منکرین حدیث نے اصول موضوعہ کی طرح مان لیا ہے، حالانکہ یہ بھی دنیا کے متفق علیہ مسائل سے نہیں، بلکہ اس میں نظار کو اختلاف ہے، چنانچہ صاحب مسلّم الثبوت فرماتے ہیں: ’’الجمهور علي أن ذلك العلم ضروري بالعادة، ومال الغزالي إلي أنه من قبيل قضايا قياساتها معها، وهو قريب، وقال الكعبي و أبو الحسين والإمام إنه نظري، و توقف المرتضيٰ والآمدي‘‘ (مسلّم الثبوت:2/81) [1] ’’جمہور کے نزدیک متواتر کا افادہ علم کی ضرورت عادی ہے۔ غزالی اسے ’’قياساتها معها‘‘ کی قسم سے تصور کرتے ہیں۔ کعبی اور ابو الحسین وغیرہ متواتر سے حاصل شدہ علم کو نظری سمجھتے ہیں اور آمدی اس کے افادہ علم ہی میں متوقف ہیں۔‘‘ روضہ لابن قدامہ حنبلی، امام الحرمین اور ابو الخطاب کو احباب شافعی نے بھی اسی زمرہ میں شمار کیا ہے۔ وكذا ذكره في حصول المأمول براہمہ متواتر کو بھی ظنی سمجھتے ہیں۔ ملاحظہ ہو: ’’كشف الأسرار‘‘ [2] پھر یہ بحث بھی متواتر کے الفاظ اور ان کے ہم تک پہنچنے کے متعلق ہے، رہا دلالت علی المفہوم کا مسئلہ تو اس میں کتاب اللہ، سنت متواترہ اور اخبار آحاد سب ظنی ہیں۔ تفسیر قرآن میں اہل علم کے اختلاف اور شروحِ حدیث میں شرّاحِ حدیث کی مختلف توجیہات اس ظنیت کی دلیل ہیں۔ پھر معلوم نہیں الفاظ کے تواتر یا ان کی ظنیت سے احادیث پر حملہ آور ہونے سے کیا فائدہ؟ بہرحال اس راہ کی منازل سے منزل ظن کے سوا کوئی چارہ نہیں۔ الفاظ اگر یقین سے پہنچیں گے تو مقاصد پر دلالت ضرور ظنی ہو گی۔
Flag Counter