Maktaba Wahhabi

420 - 676
کیا عربوں نے آسانی سے قرآن کو قبول کر لیا؟ مولانا کا یہ ارشاد: ’’قُرْآنًا عَرَبِيًّا‘‘ کی تعلیم عربی بولنے والوں کو نئی معلوم نہ ہوئی اور ان ممالک میں اسلام بآسانی پھیل گیا۔‘‘ بھی تاریخی حقائق کے خلاف ہے، کیونکہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی زندگی کے قریباً پچیس سال عرب ہی میں صرف ہوئے اور آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے آخری عہد میں یمن میں فتنہ ارتداد رونما ہو گیا اور مسیلمہ، اسود اور سجاح کو خاصی کامیابی بھی ہو گئی۔ علاوہ ازیں کیا یہ واقعہ نہیں کہ عرب کس طرح توحید سے گھبراتے تھے اور اس دعوت کو ﴿إِنْ هَـٰذَا إِلَّا اخْتِلَاقٌ﴾ (ص: 7) سے تعبیر کرتے اور ﴿إِنَّ هَـٰذَا لَشَيْءٌ عُجَابٌ﴾ (ص: 5) کہتے تھے؟ پھر بدر، حنین، خندق اور موتہ وغیرہ قریباً 23 جنگیں اسی سلسلے میں لڑنی پڑیں۔ جب واقعات یہ ہیں، تو فرمائیے آسانی سے کس طرح قبول کیا ہے؟ سارے مصائب کا سرچشمہ تو عرب ہی تھے۔ سنت کی تاریخی حیثیت بھی اگر آپ لوگوں کو گوارا نہیں، تو یہ قرآن ہی کی شہادت ہے۔ ایران میں اسلام کی حیثیت: حضرت عمر رضی اللہ عنہ نے جمادی الاولیٰ 13ھ میں خلافت کی ذمہ داری سنبھالی۔ [1] 16ھ میں فتوحات کا رخ فارس کی طرف ہوا، اسی سال جلولاء کی جنگ میں یزدجرد کو شکست ہوئی اور وہ رے میں چلا گیا۔[2]یہ سلسلہ قریباً 23ھ میں ختم ہوا۔ ان جنگی مہمات میں اسلام کی اشاعت بھی ہوتی رہی اور فتوحات کا سیلاب بھی بڑھتا گیا۔ سعید روحیں اسلام سے متاثر ہوئیں، مگر ان فتوحات میں کسی ایسی سازش کا پتہ نہیں چلتا، جس سے یہ سمجھا جا سکے کہ ایرانی عوام اسلامی حکومت کو ناپسند کرتے ہیں۔ شاہی خاندان اور ان کی وظیفہ خوار فوجیں لڑتی رہیں، مگر ایرانی عوام میں ان فتوحات کے خلاف کوئی بے چینی پیدا نہیں ہوئی۔ اس بنا پر موصوف کے اس ارشاد:
Flag Counter