عجمی سازش کا تجزیہ، واقعات کی روشنی میں
(منکرینِ حدیث کے ایک سوال کا جواب)
میری کتاب ’’جماعت اسلامی کا نظریہ حدیث‘‘ پر ’’طلوع اسلام‘‘ نے جولائی 1957ء کے پرچے میں ’’تعارفی‘‘ نوٹ لکھا [1] اور وہ پرچہ مجھے بھی بھیج دیا۔ اس تقریب سے اتفاقاً ’’طلوع اسلام‘‘ کی زیارت کا موقع مل گیا۔
اپنی کتاب کے ’’تعارف‘‘ کے متعلق مجھے کچھ نہیں عرض کرنا ہے، کیونکہ تعارفی نوٹ سے ظاہر ہے کہ ’’عریف‘‘ محترم کو خود بھی معرفت حاصل نہیں ہو سکی تو دوسروں کے تعارف کی کوشش کرنا بے سود ہے۔ پھر یہ ’’تعارف‘‘ ایسی ذہنی کیفیت کا غماز ہے، جس کی بنیاد تقلیدی جمود اور گروہی عصبیت کے سوا کچھ نہیں۔ ان حالات میں صحیح تنقید یا تعارف کی امید ہو بھی کیسے سکتی ہے؟
ہاں اسی شمارے میں ہمارے دیرینہ محترم دوست مولوی ابراہیم صاحب ناگی امرتسری کا ایک سوال شائع ہوا ہے، جو ان کے خیال میں تاریخی ہو تو ہو، در حقیقت وہ کوئی تاریخی چیز نہیں، بلکہ وہی جدید مغالطہ ہے جو منکرین حدیث کی اس قسم کو لگا ہے جو یورپ اور کعبہ کو بیک وقت پوجنے کی کوشش کرتے رہے ہیں، لیکن ان کے ذہن کی پوری ساخت یورپین ہے۔ ان لوگوں کو علماءِ مغرب کی اکتشافیات پر کتاب اللہ اور سنت رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے زیادہ یقین ہے، مگر اسلامی علوم سے یا بے خبر ہیں یا بد گمان! اس لیے ان کی کوشش ہے کہ اسلامی علوم کو مغربی اکتشافات کا بپتسمہ دیا جائے۔
مضمون نگار نے مسئولیت کی ذمہ داریوں سے بچنے کے لیے اپنے طبعی رجحانات بلکہ فیصلوں کو سوال کا رنگ دیا ہے، ورنہ دراصل وہ اسی فیصلہ کو دہرانا چاہتے ہیں، جس کی سازش غالباً کراچی ’’طلوع اسلام‘‘ کے دفتر میں ہوئی۔
|