نہ کسی عرب کو لگا نہ کسی عجمی کو، نہ استاد نے اسے محسوس کیا، نہ شاگرد نے نہ ساتھی نے ۔۔!
پھر تعجب بالائے تعجب یہ ہے کہ فارس کی فتح پہلی صدی کے اوائل میں ہوئی اور سازش کا منصوبہ تیسری صدی میں بنایا گیا۔ تقریباً پورے دو سو سال بے وقوف اہل فارس آرام کی نیند سوتے رہے۔ یعنی جب شکست کا دور اور کوفت تازہ تھی، اس وقت تو فارسیوں کو کوئی احساس نہ ہوا، لیکن تین سو سال کے بعد درد کی بے قراریاں انگڑائیاں لینے لگیں اور فارسی سازشیوں نے بخاری، مسلم اور کتب صحاح کی صورت اختیار کر لیفيا للعقول وأربابها۔۔!!
پھر اتنی بڑی سازش، جس نے پوری اسلامی اور تعلیمی دنیا کو اپنی لپیٹ میں لے لیا، اسے کوئی نہ جان سکا۔ دنیا کے مسلم اور غیر مسلم مؤرخوں کی آنکھیں بے کار ہو گئیں۔ قلم ٹوٹ گئے اور زبانیں گنگ۔ ان کی ضخیم کتابیں اس عظیم الشان سازش کے تذکرہ سے یکسر خالی ہیں۔ یہ راز سب سے پہلے یورپ کے ملحد مکتشفین پر کھلا اور اس کے بعد دفتر ’’طلوع اسلام‘‘ کے دریوزہ گروں نے کچھ ہڈیاں مستعار لے لیں۔ ﴿فَوَيْلٌ لَّهُم مِّمَّا كَتَبَتْ أَيْدِيهِمْ وَوَيْلٌ لَّهُم مِّمَّا يَكْسِبُونَ﴾ (البقرہ: 79)
عجمی سازش اور دینی علوم:
فن حدیث کے طالب علم جانتے ہیں کہ فن حدیث کو آغاز ہی میں تین مراحل سے گزرنا پڑا: جمع و تدوین اور ترتیب حدیث۔ جمع اور حفظ کا سلسلہ تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی حیات مقدسہ میں آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے سامنے ہی شروع ہو گیا تھا۔ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے علماءِ حدیث اور اس کی طلب میں سرگرداں ہونے والوں کے حق میں دعائیں فرمائیں:
((رَحِمَ اللّٰه امرأ سِمع كَلَامِي، فَوَعَاهَا، ثُمَّ أداهَا، كَمَا سَمعهَا)) [1](مشكوٰة، كتاب الاعتصام)
’’اللہ تعالیٰ اس شخص پر رحم فرمائے جس نے میری بات سن کر اسے یاد رکھا، پھر جس طرح سنا اسی طرح پہنچا دیا۔‘‘
|