Maktaba Wahhabi

254 - 676
’’قال الحسن: نيته‘‘ [1] امام حسن فرماتے ہیں: مطلّق کی نیت کے مطابق فیصلہ ہو گا۔ لفظ حرام طلاق اور قسم دونوں معنی میں استعمال ہوتا ہے۔ امام نے ایک بہت بڑی دقت معاشرہ سے اٹھا دی۔ اللّٰه م اجعل جنة الفردوس مأواه۔ استثناء: استثناء کے متعلق بعض اہل علم کا خیال تھا کہ قلیل کو کثیر سے مستثنیٰ کیا جا سکتا ہے، لیکن کثیر کا استثناء صحیح نہیں۔ امام بخاری رحمہ اللہ نے فرمایا: اس میں بھی کوئی حرج نہیں۔ اس کے لیے نصوص سے استدلال فرمایا اور شروط کے مفہوم کی تعیین کے لیے ’’الَّذِي يَتَعَارفهَا النَّاس بَيْنهم‘‘[2]فرما کر معاملہ کو حقیقت سے قریب تر کر دیا۔ اگر دنیا کو توفیق ملی کہ وہ اپنے قوانین کی تاسیس اور تشکیل اسلام کی روشنی میں کرے، تو امام بخاری اور محدثین کرام ان کے لیے بہترین راہنما ہوں گے۔ نفقات: نفقات کے متعلق مفلس، متعنت اور مفقود الخبر کا معاملہ فقہ حنفیہ کے مطابق بہت ہی مشکل تھا۔ ائمہ احناف رحمہم اللہ ان تینوں صورتوں میں فسخ کی اجازت آسانی سے مرحمت نہیں فرماتے تھے۔ ان کے ارشادات کے مطابق عقد نکاح کی تقدیس کا خیال تو واقعی بدرجہا غایت تھا، لیکن عورت کی مظلومیت، اس کی اقدارِ زندگی اور غیر طبعی حالات کا اس میں کوئی حل نہ تھا۔ انگریزی عمل داری کے زمانے میں کاظمی بل کی تشکیل سے پہلے ان قوانین کا جو اثر پاک و ہند کے مسلمانوں پر پڑا، وہ حدیثِ محفل ہے۔ امام کے مسلک اور فتویٰ علی مذہب الغیر کی آڑ میں بعض مسلمانوں کی دادرسی ہوتی رہی، مگر بعض حضرات تو بدستور مسلک اہل حدیث سے ناراض رہے۔ مولانا تھانوی پر اللہ تعالیٰ کروٹ کروٹ رحمت فرمائے، انہوں نے ’’الحيلة الناجزة للحليلة العاجزة‘‘ لکھ کر موالک، حنابلہ، شوافع کے فتوؤں سے
Flag Counter