Maktaba Wahhabi

234 - 676
طرف ہو، مگر جو سادگی اور اثر اس طریق میں پنہاں ہے، وہاں ناپید ہے، اور مخالف کو اس پر ناراضگی کی کوئی وجہ نہیں۔ یہی تبلیغ کی صحیح راہ ہے۔ ان ذیلی ابواب سے مقصد یہ ہے کہ یہ تمام اعمال حقیقتاً ایمان کے لیے ضروری ہیں، ان کے بغیر ایمان کامل نہیں ہو گا۔ ایمان کے متعلق چار مذہب: ایمان اور اعمال کا باہم کیا تعلق ہے؟ اس میں چار نظریات ہیں: (1) خوارج (2) معتزلہ اعمال کو جزوِ ایمان سمجھتے ہیں۔ خوارج ارتکابِ کبیرہ کو کفر سمجھتے ہیں، معتزلہ کفر نہیں سمجھتے۔ (3) مرجیہ کا خیال ہے کہ اقرار کے بعد عمل کی ضرورت ہی نہیں۔ (4) اہل سنت کے نزدیک اعمال ایمان کے لیے ضروری ہیں، ائمہ حدیث اعمال کو جزوِ ایمان سمجھتے ہیں۔ اس کی وضاحت حضرت امام رحمہ اللہ نے صحیح کے ذیلی ابواب میں فرمائی ہے۔ اس مقام پر علمی مباحث جو بھی ہیں، ان کی اہمیت اپنی جگہ پر مسلّم ہے، لیکن محدثین کے مسلک کی حمایت ظاہر قرآن سے ہوتی ہے۔ چنانچہ قرآن مجید میں ہے: ﴿يَا أَيُّهَا الَّذِينَ آمَنُوا لِمَ تَقُولُونَ مَا لَا تَفْعَلُونَ ﴿٢﴾ كَبُرَ مَقْتًا عِندَ اللّٰه أَن تَقُولُوا مَا لَا تَفْعَلُونَ ﴿٣﴾﴾ (الصف: 2، 3) ’’ایمان والو! جو تم کرتے نہیں کہتے کیوں ہو، اللہ تعالیٰ کے ہاں یہ بہت ہی رنجش کی بات ہے کہ جو تم کہو تمہارا عمل اس کے مطابق نہ ہو۔‘‘ اہل ایمان کو مخاطب فرما کر اعمال کا ذکر جس انداز سے کیا گیا ہے، اس کا نتیجہ ظاہر ہے کہ بے عمل آدمی کا ایمان کامل نہیں ہو سکتا۔ ایمان آج کے معاشرہ میں: آج معاشرہ کی سب سے بڑی خرابی یہ ہے کہ ہم لوگ اہل سنت کہلانے کے باوجود مرجیہ کی طرح زندگی گزار رہے ہیں۔ اعمال ایمان کا جزو ہوں، تو اس سے فی الواقع دنیا کا انداز ہی بدل جاتا ہے۔ ہمارا تو یہ حال ہے کہ ہم بے عملی اور بد عملی کو ایمان کا جزو سمجھتے ہیں۔ یورپین تعلیم نے جس طرح زندگی کا دنیا میں آغاز کیا ہے، اس میں بے عملی زندگی کا جزو بن کر رہ گئی ہے۔ اس لیے اگر دنیا میں آپ کو کوئی انقلاب بپا کرنا ہے اور ایک فعال قوم کی طرح زندہ رہنا
Flag Counter