امام احمد رحمہ اللہ اور اسحاق بن راہویہ خبرِ واحد صحیح سے جو کچھ ثابت ہو، اس سے انکار کو کفر سمجھتے تھے۔ ابنِ قیم ایک مقام پر ان لوگوں پر اس طرح سے تعجب فرماتے ہیں:
’’یہ لوگ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی احادیث کو اس لیے نہیں مانتے کہ (وہ آحاد ہیں) ان سے علم حاصل نہیں ہوتا، اور ذہنی خیالات اور باطل شبہات کو قبول کر لیتے ہیں جو معتزلہ، جہمیہ اور فلاسفہ سے منقول ہیں اور ان کا نام ’’براہینِ عقلیہ‘‘ رکھ لیتے ہیں۔‘‘ (صواعق: 2/375)
ابنِ قیم نے ’’صواعق مرسلہ‘‘ کی دوسری جلد کے قریباً ایک سو سے زائد صفحات معتزلہ کے اسی نظریہ کے خلاف لکھے ہیں جو انہوں نے خبرِ واحد کے متعلق ظاہر کیا اور اسی نظریہ کے سہارے پر سینکڑوں سننِ صحیحہ کا انکار کیا۔ حق کی جستجو کرنے والوں کو اس طرف توجہ کرنی چاہیے۔ حدیث کے متعلق تحقیقی مطالعہ کے لیے ’’موافقات‘‘ کا ’’باب السنۃ‘‘، ’’احکام ابن حزم‘‘ کا ’’باب السنۃ‘‘ اور ’’صواعق مرسلہ‘‘ کا یہ مقام ضرور دیکھنا چاہیے۔[1]
دوسرا دور:
معتزلہ کے اس حملہ سے صرف اہلِ حدیث اور حنابلہ محفوظ تھے۔ احناف، موالک، شوافع اور شیعہ سے بعض اہلِ علم اعتزال سے متاثر ہو گئے تھے۔ وہ فروع میں احادیث کو مانتے، آحاد کی ظنیت پر یقین کرتے تھے۔ احناف میں سے بشر مریسی (متوفی 668ھ) تو کھلے معتزلی ہیں۔ قاضی عیسیٰ بن ابان[2] (متوفی 221ھ) امام محمد کے شاگرد ہیں۔ مولانا عبد الحی نے ’’فوائد البہیہ‘‘ میں ان کا مختصر
|