آپ ہندوستان ہی کے حالات کو دیکھئے، مغل حکومت کے اختتام کے بعد بغیر اہل توحید و سنت کے کوئی بھی انگریز کی مخالفت کو دیر تک سینے میں جگہ نہ دے سکا۔ یہ لوگ انگریز اور اس کی تہذیب کی مخالفت برسوں سینوں میں دبائے پھرے۔ ہند اور بیرون ہند میں اس کو شکست دینے کی تجویز کرتے ہیں، لیکن بزرگوں سے سرسید اور مرزا غلام احمد دونوں انگریز کی گود میں چلے گئے۔ سرسید کو اس معاملہ میں شاید مخلص کہا جا سکے، لیکن مرزا غلام احمد تو صرف انگریز کی غلامی کو اپنی نبوت کی بنیاد سمجھتے تھے۔ مجھے معلوم ہے کہ پرویز صاحب اور ان کے رفقاء کا تعلق ان ہی دونوں سلسلوں سے ہے۔ وہ تصورات کی آوارگی میں سرسید کی پیروی کرتے ہیں اور تاویل میں مرزا غلام احمد کے شاگرد ہیں۔ آپ ایسے لکھے پڑھے لوگ انتقام کی آگ کو سینوں میں زندہ نہ رکھ سکے تو فارسیوں سے آپ کون سی عجمی سازش کی امید رکھ سکتے ہیں؟ اس جنون آمیز فسانہ کو جس قدر جلد ممکن ہو دماغ سے نکالیے۔ انقلاب کی نفسیات سے اس انقلاب کی قطعاً تائید نہیں ہوتی۔ پڑھے لکھے لوگوں کو کچھ تو معقول بات کہنی چاہیے!
عجمیوں کو کیا ملا؟
سوچنا یہ ہے کہ عجمیوں کا ملک گیا، ان کی سیاسی موت ہوئی، اب انتقام اس طرح لیا گیا کہ اسلامی علوم کی خدمت کا ان لوگوں نے ذمہ لے لیا، اسلام کی علمی خدمات میں رات دن ایک کر دیا، وطنی سیاسیات سے بالکل الگ ہو کر علوم کی تدوین میں لکھو کھہا احادیث حفظ کیں۔ حفظ کی کمی، دیانت کے فقدان سے جو غلطیاں اس میں آ گئی تھیں، بلکہ ثقات سے جو اوہام سرزد ہوئے تھے، ان کی نشاندہی کی۔ ابن ابی حاتم کی ’’علل‘‘ اور ’’الجرح والتعديل‘‘ قاضی عیاض کی ’’مشارق الأنوار‘‘ پر ایک نظر ڈالیے اور فیصلہ فرمائیے کہ یہ سیاسی انتقام ہے یا خدمتِ دین کا خالص جذبہ؟ آپ حضرات کو شرم آنی چاہیے کہ جن لوگوں نے اس تن دہی اور خلوص سے اسلام کی خدمت فرمائی، آپ ان کو سازشی کہہ کر بدنام کر رہے ہیں۔ نمک حرامی کی حد ہو گئی۔ پھر ان سازشی حضرات نے، جیسے کہ ذکر ہوا، کبھی شاہی درباروں کا رخ نہ کیا۔ اگر کسی بادشاہ نے احتراماً کچھ دینے کی کوشش کی، تو اس کے قبول کرنے سے انکار کر دیا۔ بادشاہ نے گھر بلایا، تو اَڑ گئے۔ بادشاہ نے علم حاصل کرنا چاہا، تو مساوات کے لیے مدرسہ کی چٹائیوں کی پیشکش فرمائی اور کسی تخصیص سے انکار کر دیا۔ یہ عجیب سازشی ہیں کہ سیاسی کامیابیوں کی تمام راہوں سے الگ ہو کر عرب بادشاہوں کو کھلا چھوڑ دیا کہ یہ
|