آیت کے نزول اور وضو کی فرضیت میں آٹھ سال کے فرق کا ذکر پہلے علماء نے بھی فرمایا ہے۔ ملاحظہ ہو: مفتاح السعادة، الإتقان في علوم القرآن للسيوطي، أبجد العلوم للنواب كشف الظنون لچلپي وغیرہ میں ہے:
’’ومثال الثاني: آية الوضوء، إنها مدنية إجماعا، وفرضه كان بمكة مع فرض الصلوٰة، وكآية الجمعة فإنها مدنية، والجمعة فرضت بمكة كذا قيل، والحكمة في ذلك تأكيد حكم السابق بالآية‘‘ [1]
’’وضو کی آیت مدینہ میں نازل ہوئی اور وضو نماز سمیت مکہ میں فرض ہوا۔ اسی طرح جمعہ مکہ معظمہ میں فرض ہوا لیکن سورہ جمعہ مدینہ میں نازل ہوئی۔ ان حالات سے واضح ہوتا ہے کہ اثباتِ حکم میں سنت پر اعتماد کیا گیا اور قرآن میں اس کی تائید فرما دی گئی۔‘‘
5۔ ﴿ وَأَقِيمُوا الصَّلَاةَ وَآتُوا الزَّكَاةَ ﴾ (البقرۃ: 43)
’’قائم کرو نماز اور ادا کرو زکوٰۃ۔‘‘
نماز اور زکوٰۃ کا حکم قرآن میں بار بار آیا ہے لیکن تعینِ اوقات، رکعات اور وظائف و اوراد کی تفصیل قرآن مجید میں نہیں۔ اسی طرح زکوٰۃ کی مختلف قسموں کے احوال میں نصاب کا تعین اور مقدارِ زکوٰۃ کی وضاحت قرآن میں نہیں۔ جن حضرات نے ان تفصیلات کو قرآن سے الگ طے کرنے کی کوشش کی ہے وہ اپنی کوشش میں بری طرح ناکام ہوئے ہیں۔ اس لیے خود قرآن مجید حجیت حدیث کا مطالبہ کر رہا ہے۔
اہلِ قرآن سے:
ادباً گزارش ہے کہ جہاں تک اسلام اور اس کی تعلیمات کا تعلق ہے، سنت کی حجیت اور تسلیمِ احادیث کے سوا کوئی چارہ نہیں۔ تعلیماتِ اسلامی میں اس کی حیثیت ایک ایسے جز کی ہے جس کے انکار سے حقیقتِ ایمان میں فرق آ جاتا ہے۔ انکارِ نبوت اور انکارِ فرامین نبوت میں چنداں فرق نہیں۔ ایمان پیغمبر کے جسم پر نہیں لایا جاتا، اس کے ارشادات پر ہی بولا جاتا ہے۔ جہاں تک ایمان
|