منکرینِ سنت اور معترض ’’مفکرین‘‘ سے:
منکرینِ سنت اور حدیث پر اعتراض کرنے والے حضرات سے گزارش ہے کہ فنِ حدیث کی حیثیت اتھاہ سمندر کی ہے۔ امت نے تقریباً تیرہ سو سال اس کی خدمت کی ہے اور مختلف راہوں سے کی ہے۔ ابن صلاح کی ’’علوم الحدیث‘‘ اور حاکم کی ’’معرفۃ علوم الحدیث‘‘ پر نظر ڈالیے۔ آپ کو اس فن کی خدمت میں تنوع نظر آئے گا اور حافظ بغدادی کی ’’الکفایۃ‘‘ میں بھی علومِ حدیث کا کافی مواد ہے۔
ان متنوع خدماتِ حدیث کا نتیجہ یہ ہے کہ صدیوں کی عقیدت مندانہ خدمات اس کی پشت پر ہیں۔ اس بلندی سے اسے نیچے لانے کے لیے فنی قابلیت ضروری ہے۔ اس کی باریکیوں اور نزاکتوں پر نظر رکھے بغیر تنقید کرنا خفت کا موجب ہو گا۔
آپ حضرات نے شیوہ بنا رکھا ہے کہ ساری عمر انگریزی قانون اور انگریزی زبان پڑھتے ہیں، پھر ملازمت کرتے ہیں، پھر ریٹائر ہوتے ہیں اور یہ آخری فرصت کی گھڑیاں جو آپ کو عبادت کے لیے قدرت نے عطا کی ہیں، ان کو سنت پر اعتراض اور بحث کرنے میں صرف کرتے ہیں اور اہل فن کی نظر میں مضحکہ بنتے ہیں۔ یا پھر اونچی کرسیوں سے اس شریف فن پر حملہ آور ہوتے ہیں، حالانکہ آپ ایک خاص قانون کے ماہر ہیں، علوم الحدیث سے واقف نہیں۔ کرسی کی آڑ میں یہ شکار مناسب نہیں۔
آپ اپنے مقام سے نیچے آئیے اور اہل فن کے ساتھ بیٹھ کر اس کی مشکلات اور اس کے آداب و لوازم اور پھر اس کے نتائج پر غور فرمائیے، پھر اگر آپ کا ضمیر مطمئن نہ ہو، شرح صدر سے تنقید فرمائیے۔
بلاتی ہیں موجیں کہ طوفاں میں اترو
کہاں تک چلو گے کنارے کنارے
ہمیں یقین ہے کہ اس فن کے آداب و لوازم کو جاننے کے بعد آپ نہ صرف یہ کہ اعتراض کے قابل نہ رہیں گے، بلکہ ان بوریا نشینوں کی صفوں میں ایک مناسب اضافہ ہو گا اور اگر ایسا نہ ہو سکا تو آپ کے اعتراض معقول ہوں گے۔ ان میں کچھ وزن ہو گا اور سامعین کو کچھ فائدہ بھی پہنچے گا۔
|