قاتلین عثمان رضی اللہ عنہ اور جنگ جمل:
پھر اس جھوٹ کے لیے بھی کوئی وجہ جواز ہونی چاہیے کہ قاتلین عثمان رضی اللہ عنہ نے بقول عمادی صاحب حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا کو بدنام کرنے کی کوشش کیوں کی؟ جنگ جمل میں کئی حضرات اور بھی شریک تھے۔ اسی جنگ میں حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا نے حضرت عثمان رضی اللہ عنہ کے قصاص کا سوال بڑی اہمیت سے اٹھایا، لیکن حضرت زبیر رضی اللہ عنہ اور حضرت طلحہ رضی اللہ عنہ اسی جنگ میں قائد کی حیثیت سے شریک تھے۔ صفوان بن معطل رضی اللہ عنہ صبح کے بعد چند گھنٹے حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا کی معیت میں چلے، لیکن جنگ جمل میں تو حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا کی معیت کا ہفتوں شرکاءِ جمل کو موقعہ ملا۔ آپ کے عجمی سازش کرنے والوں کے لیے یہ بہترین موقعہ تھا، بیک کرشمہ دوکار کی صورت ہو جاتی۔ حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا بھی بدنام ہو جاتیں، رفقاءِ جمل بھی بدنام ہو جاتے، قرآن کے نزول سے بریت کا بھی کوئی امکان نہ ہوتا۔ افسوس ہے کہ ان عجمی حضرات نے سازش کے لیے عمادی صاحب اور ادارہ ’’طلوع‘‘ سے مشورہ نہ کیا!
منافقین کا اطمینان:
یہ آپ نے صحیح فرمایا کہ نزول قرآن سے منافقین کا اطمینان کیسے ہو گیا؟ جو نہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کو پیغمبر مانتے تھے، نہ قرآن کو منزل من اللہ!
حقیقت یہ ہے کہ ان کا اطمینان مطلوب ہی کہاں تھا؟ ایسے واقعات میں سادہ دل مسلمانوں پر جو اثر ہوا تھا، حمنہ بنت حجش رضی اللہ عنہا، حسان بن ثابت رضی اللہ عنہ، حضرت علی رضی اللہ عنہ ایسے حضرات اس افواہ سے قدرے متاثر ہوئے تھے۔ قرآن کے نزول سے ان مسلمانوں کی تسکین مطلوب تھی جو بحمداللہ ہو گئی۔ عبداللہ بن اُبی تو بدستور آپ کی طرح غیر مطمئن رہا۔ ﴿قَاتَلَهُمُ اللّٰه ۚ أَنَّىٰ يُؤْفَكُونَ﴾
مرزا حیرت اور سید سلیمان ندوی رحمہ اللہ:
حدیث پر کلام کے لیے نہ مرزا حیرت کے ترجمہ کی ضرورت تھی، نہ سید سلیمان صاحب رحمہ اللہ کی ترجمانی کی۔ یہ محض طول اور اطناب ہے۔ اس سے اوراق سیاہ کرنے کے سوا کوئی فائدہ نہیں۔ مرزا حیرت نے گو ترجمہ کیا، لیکن حجیت حدیث کے متعلق ان کی رائے بھی اہل قرآن سے ملتی جلتی ہے۔ وہ ترجمہ کے بارے میں صاحب فن نہیں، بلکہ آپ کی طرح مزدور ہیں۔ جس طرح آپ فن حدیث سے
|