Maktaba Wahhabi

410 - 676
[1]حضرت ابن عباس رضی اللہ عنہما اور بعض دوسرے اہل علم کے سامنے جب ایک موضوع ذخیرہ پیش کیا گیا تو انہوں نے اسے تلف کر دیا، [2] 1لیکن عجمی سازش کا نام تک نہیں لیا، بلکہ ظاہر ہے کہ حدیثیں بنانے کا کام اس دور سے بہت پہلے شروع ہو چکا تھا، جب سے عجمی فسانہ کے مصنفوں نے اس کی ضرورت محسوس کی۔ مولانا عمادی اینڈ کمپنی نے تو یہ درد اور بھی دیر سے محسوس کیا۔ اس وقت تک گفتگو اس پہلو پر تھی کہ آیا عجمی سازش کے مدّعیوں نے اس افسانہ کو ثابت کرنے کے لیے کوئی ایسا ثبوت مہیا کیا، جس سے یہ افسانہ ثابت ہو سکے؟ اور آیا وہ ان ذمہ داریوں سے عہدہ برآ ہو سکے جو یہ دعویٰ ثابت کرنے کے لیے قانوناً لازم تھیں؟ فن حدیث مضامین کے لحاظ سے: اب اس پہلو پر غور فرمائیے کہ فن حدیث میں اندرونی طور پر بھی کوئی ایسی شہادت یا قرینہ مل سکتا ہے جس کی بنا پر اسے عجمی سازش کہا جا سکے؟ اگر یہ صورت بھی ثابت ہو سکے تو سوچا جا سکتا ہے کہ شاید اس دعویٰ میں کوئی جان ہو اور عجمی سازش کے مدّعیوں کا خواب شرمندہ تعبیر ہو سکے۔ یہ پہلو جس قدر دلچسپ ہے، اسی قدر مبسوط بھی ہے۔ ضرورت ہے کہ دفاترِ سنت کے ایک ایک باب پر اس نگاہ سے غور کیا جائے کہ شکست خوردہ عجمیوں کو ان تعلیمات سے کیا فائدہ ملا؟ اگر فی الواقع یہاں کوئی سازش موجود تھی، عجمی امراء نے سیاسی انتقام کے لیے ان علماء کو خریدا تھا، ان سے پوری ڈیڑھ صدی کام لیا۔ غالباً اس عرصہ میں ان علماء کو کروڑوں روپیہ دیا ہو گا، ڈیڑھ دو سو سال کی محنت، لاکھوں آدمی کام کرنے والے، ان پر کروڑوں روپیہ خرچ ہونا بالکل قدرتی ہے۔ اس صحبت میں اس پہلو پر استقصاء سے بحث کرنا مشکل ہے۔ میں صرف ’’الجامع
Flag Counter