سند اجازت، وجادہ، غرض مختلف انداز سے امت نے اس فن کی خدمت کی، اس کے علوم کو مرتب فرمایا اور اسے پوری زندگی کا مشغلہ قرار دیا۔ یہ عجیب سازش تھی جو مقصد زندگی قرار پا گئی۔ راتوں کی نیند حرام ہو گئی، دنیا کے مشاغل سب طاقِ نسیاں کی زینت ہو گئے۔ نہ اچھے کھانے کی خواہش، نہ بہتر مکان کی تلاش، نہ بادشاہوں کے درباروں سے رابطہ ۔۔!
عرصہ ہوا امرتسر کے رسالہ ’’بیان القرآن‘‘ میں ان بیچاروں پر یہ بھی الزام لگایا گیا کہ محدثین نے درباروں کا مقاطعہ کر کے ملک کی خدمت کے بہترین مواقع ضائع کر دیے۔
دراصل عیب چینی، الزام تراشی سب سے سہل مشغلہ ہے، خصوصاً ان لوگوں پر جو صدیوں سے اللہ کو پیارے ہو چکے ہیں۔ اور اعتراض بھی وہ لوگ کریں جن کی اپنی زندگیاں خدا شناسی، خدا ترسی سے تقریباً نا آشنا ہیں۔ اعمال صالحہ، اتباع سنت اور ورع و تقویٰ سے یکسر خالی۔ یہاں کی سب سے بڑی دینی خدمت اور منتہائے علم کتابوں کی فروخت اور جھوٹ سچ کہہ کر اداروں کو چلانا اور حضرات امراء کو خوش کرنے کے سوا کچھ نہیں۔ ائمہ حدیث زندہ ہوتے تو ان معترضین کو عمر خیال کی زبان سے عرض کرتے ؎
صاحب فتویٰ ز تو پُر کارتریم
بایں مستی از تو ہشیار تریم
تو خونِ کساں بخوری ما خونِ رزاں
انصاف بدہ کدام خونخوار تریم [1]
ائمہ حدیث معصوم نہیں۔ جمع و تدوین و ترتیب میں غلطی ہو سکتی ہے۔ وہ خود آپس میں تنقید و استدراک فرماتے ہوئے بڑے سے بڑے آدمی کی لغزش کو معاف نہیں فرماتے، لیکن کسی سازش اور دیانت فروشی کا ادنیٰ احتمال بھی اس بارگاہ میں ممکن نہیں۔ ﴿مِّنَ الْمُؤْمِنِينَ رِجَالٌ صَدَقُوا مَا عَاهَدُوا اللّٰه عَلَيْهِ ۖ فَمِنْهُم مَّن قَضَىٰ نَحْبَهُ وَمِنْهُم مَّن يَنتَظِرُ ۖ وَمَا بَدَّلُوا تَبْدِيلًا﴾ (الاحزاب: 23)
مُشت بعد از جنگ:
یہ سازش کی تہمت کا حربہ بڑی دیر کے بعد منکرین حدیث کے ذہن میں آیا۔ یہ مشت بعد از جنگ ہے، اس کا استعمال اپنے ہی قرابت داروں پر ہونا چاہیے تھا۔ جمع و تدوین کا سلسلہ تقریباً تیسری
|