Maktaba Wahhabi

403 - 676
فریب ہی نہ ہو۔ آخر عجمیوں نے سازش سے کیا کیا نہ کرایا ہو گا؟ اس وہم خولیا کے ہوتے ہوئے جس سے آپ حضرات بری طرح متاثر ہیں، نہ متواتر حدیث قابل اعتبار ہو سکتی ہے، نہ مشہور، نہ خبر واحد! یہ حادثہ کیسے ہوا؟ منکرین حدیث کے خیال کے مطابق اسلام کے ابتدائی دور میں حدیث حجت نہیں سمجھی جاتی تھی۔ جب اسلام عجمی سازش کا شکار ہوا تو لوگ حدیث کو حجت سمجھنے لگے۔ سوچنے کی چیز یہ ہے کہ اتنا بڑا حادثہ ہوا، نظر و فکر پر اتنا بڑا انقلاب آیا کہ سوچنے کی قدریں بدل گئیں، اربابِ فکر ایک نئی دنیا میں پہنچ گئے، قرآن ایک ایسی کامل کتاب کی جگہ ظنی احادیث نے لے لی اور یہ سب کانوں کان ہو گیا، کسی کو پتا ہی نہ چلا کہ اسلام پر کیا حادثہ گزر گیا؟ تاریخ کے دساتیر میں اتنے بڑے سانحہ کی نہ تاریخ معلوم ہے نہ وقت، نہ یہ معلوم ہے کہ اتنے بڑے انقلاب کے ہیرو کون لوگ تھے؟ اتنے بڑے جرم کو خاموشی سے کیونکر گوارا کر لیا گیا؟ إن هذا من أعاجيب الزمن! [1] ائمہ حدیث کون تھے؟ عجمی سازش کے افسانہ پر اس لحاظ سے بھی سوچا جا سکتا ہے کہ ائمہ حدیث کا تعلق کن اوطان سے تھا؟ اس میں شک نہیں بخارا، نیشا پور، خراسان، قزوین وغیرہ مقامات فن حدیث کے بہت بڑے مراکز تھے، لیکن ان ممالک میں علوم دینیہ کی ترویج کے معنی سازش نہیں ہو سکتے۔ سوچنے کی چیز یہ ہے کہ آیا علم حدیث ان مراکز سے عرب میں پہنچا ہے، یا حجاز نے ان ریگستانوں کو علوم دین سے سرسبز اور شاداب کیا ہے؟ معلوم رہے علوم دینیہ کی سب سے پہلی درس گاہ حجاز ہے۔ یہیں سے علم کی سوتیں پھوٹیں اور پوری دنیا شاداب ہو گئی۔ امام مالک اور امام شافعی کے مدارس ہی سے ان تمام ممالک میں علم پہنچا۔ جب علوم دینیہ کا پہلا سرچشمہ حجاز ہے، تو عجمی سازش کا سوال ہی پیدا نہیں ہوتا، پھر یہ علماء تمام فارسی یا عجمی ہی نہیں، ان میں خالص عرب بھی ہیں، اور بعض عجمی الاصل جو ہمیشہ کے لیے عرب میں اقامت پذیر ہو گئے۔ قاسم بن عبید بن سلام، امام شافعی خالص عرب ہیں۔ اگر عجمیت کی وجہ سے سازش کا افسانہ گھڑا جائے، تو تمام علوم عجمی سازش کا شکار ہوں گے۔ ابن خلدون نے لکھا ہے: ’’من الغريب الواقع أن حملة العلم في الملة الإسلامية أكثرهم العجم،
Flag Counter