قرآن مجید میں احادیث کا تذکرہ:
قرآنِ عزیز میں احادیث کا تذکرہ دو طرح پر ملتا ہے:
(1) رسول کی اطاعت کو اللہ تعالیٰ کی اطاعت سے الگ باستقلال ذکر فرمانا۔
(2) آیات میں ایسے مقاصد کا ذکر جن کی تکمیل حدیث کے سوا نہ ہو سکے۔
اس کے ذیل میں ان آیات کا ذکر آئے گا جن میں دونوں قسم کے تذکرے موجود ہوں۔
1۔ ﴿ وَمَا آتَاكُمُ الرَّسُولُ فَخُذُوهُ وَمَا نَهَاكُمْ عَنْهُ فَانتَهُوا ۚ ﴾ (الحشر: 7)
’’رسول جو کچھ تمہیں دیں اسے لے لو اور جس سے روکیں روک جاؤ۔‘‘
﴿آتَاكُمُ﴾ یہاں ﴿نَهَاكُمْ﴾ کے مقابلہ میں رکھا گیا ہے، اور نہی کے مقابلہ میں امر ہوتا ہے، اس لیے ﴿آتَاكُمُ﴾ کے معنی ’’اَمَرَكُمْ‘‘ کے ہوں گے۔ یعنی آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے امر پر سختی سے عمل کرو۔ امر کا مفاد وجوب ہے اور نہی کا تقاضا حرمت ہے۔ یعنی آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم جس چیز کا حکم فرما دیں اس کی پابندی واجب ہو گی اور جس چیز سے روکیں اس کا کرنا حرام ہو گا۔ آیت کا عموم آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی اطاعت کے وجوب پر مشتمل ہے۔ ﴿فَخُذُوهُ﴾ میں اسی وجوب و تاکید کا ذکر فرمایا گیا ہے۔ آیت کو تقسیمِ غنائم پر محمول کیا جائے تو بھی اصل مسئلہ پر کوئی اثر نہیں پڑتا۔ اس میں بھی تقسیم آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے امر و نہی کی بنا پر ہو گی۔ اس میں تشریع کے اختیارات آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کو تفویض فرمائے گئے۔ وجوب و تحریم دونوں میں آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے ارشادات کو قطعی اور حتمی بتایا گیا اور لوگوں پر فرض کیا گیا۔ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے امر و نہی کے بعد صرف اسی کی تعمیل کی جائے۔ کسی دوسری چیز کے انتظار کی ضرورت نہیں۔ ہمارے نزدیک حجیتِ حدیث کا یہی مطلب ہے۔
2۔ ﴿وَمَا أَرْسَلْنَا مِن رَّسُولٍ إِلَّا لِيُطَاعَ بِإِذْنِ اللّٰه ﴾ (النساء: 64)
’’ہم نے رسول (صلی اللہ علیہ وسلم) کو بھیجا ہی اس لیے ہے کہ لوگ اس کی اطاعت کریں۔‘‘
اس آیت میں رسالت کا مقصد حقیقی اطاعت قرار دیا گیا ہے۔ اگر کوئی شخص رسالت یا رسول کو تسلیم تو کرتا ہے لیکن اس کی اطاعت اور اس کے احکام کے سامنے انقیاد کو ضروری نہیں سمجھتا، تو یقین کرنا چاہیے کہ وہ نبوت کی غایت اور اس کے مقصد سے ناواقف ہے۔ کسی چیز کی غایت اور مقصد سے انکار کا نتیجہ یہ ہو گا کہ اس کی افادی حیثیت سے انکار کر دیا گیا اور اسے بے سود سمجھا گیا۔
|