Maktaba Wahhabi

130 - 676
سے بھی زیادہ، اور جو وہاں نہیں تجربہ آپ کو بتائے گا اس کی ضرورت کسی دوسری راہ سے پوری کر دی گئی ہے۔ وكم من عائب قولا صحيحاً وآفته من الفهم السقيم علم حدیث متحرک علم ہے: فنِ حدیث نے بتدریج ترقی کی، اس طرح اس کے اصول میں بھی تدریجی ارتقا پایا جاتا ہے۔ امام ابو حنیفہ اور امام مالک رحمہ اللہ مراسیل کو حجت سمجھتے تھے۔ امام شافعی رحمہ اللہ نے اسانید کے تتبع سے محسوس کیا کہ اس میں ضعف کا امکان ہے۔ صحابی کے بعد بعض اوقات کئی تابعی آ جاتے ہیں، اس لیے ضروری نہیں کہ تابعی کے بعد متروک راوی صرف صحابی ہو۔ علماءِ حدیث نے امام شافعی کی اس نکتہ آفرینی کو قبول فرمایا اور مرسل کی حجیت سے انکار کر دیا۔ حالانکہ امام مالک رحمہ اللہ حدیث میں اور امام ابو حنیفہ رحمہ اللہ فقہ میں سب کے تقریباً استاد تھے۔ امام مالک رحمہ اللہ اہل مدینہ کے عمل کو حجت سمجھتے تھے۔ ان کا خیال تھا کہ اہل مدینہ کا عمل سنت سے ماخوذ ہے۔ ائمہ حدیث نے اس اصول سے انکار فرما دیا۔ ملاحظہ ہو: ’’محلی‘‘ اور ’’احکام فی اصول الاحکام‘‘ لابن حزم اور ’’اعلام الموقعین‘‘ اور شیخ الاسلام ابن تیمیہ رحمہ اللہ کا رسالہ ’’مذہب اہل مدینہ۔‘‘ [1] بعض ائمہ کا خیال تھا کہ راوی کا فتویٰ اگر اس کی مرفوع روایت کے خلاف ہو تو اس کے فتویٰ کو ترجیح دی جائے گی۔ [2] لیکن ائمہ حدیث نے تحقیق کے بعد فیصلہ فرمایا: اگر فتویٰ کی تائید کسی مرفوع حدیث سے نہ ہو تو فتویٰ کے لیے اور بھی احتمالات ہو سکتے ہیں۔ اس لیے صحیح یہی ہے کہ ترجیح روایت اور مرفوع صحیح حدیث کو دی جائے۔ صحیح حدیث کی تعریف میں علماء کے مختلف اقوال ہیں، جن کا تذکرہ الجزائری نے ’’توجيه النظر‘‘ میں اور خطیب نے ’’الكفاية‘‘ میں فرمایا ہے، [3] لیکن بالآخر صحیح حدیث کی یہ تعریف طے ہوئی:
Flag Counter