Maktaba Wahhabi

171 - 676
حجیتِ حدیث آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی سیرت کی روشنی میں یہ گزارشات جو اس وقت ناظرین کے سامنے ہیں، ان سے مقصود نہ تو کسی کا رد ہے اور نہ ہی مناظرہ، بلکہ قرآن حکیم میں غور کی ایک راہ ہے اور قرآن کے طالب علموں کے لیے سوچنے کا ایک نہج۔ امام الہند قدوۃ اصحاب العزیمہ حضرت مولانا ابو الکلام آزاد نے ’’تذکرہ‘‘ میں اس طریقِ فکر کی طرف کچھ ضمنی ارشادات فرمائے تھے۔ اس کے بعد حضرت علامہ مولانا شیخ موسیٰ جار اللہ مہاجر موسیٰ رحمہ اللہ نے ایک مختصر سا مضمون اس انداز سے لکھا اور آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی سیرت کے چند پہلو قرآن سے استنباط فرمائے۔ راقم نے بھی ان کی اقتداء میں اپنی بے مائیگی کے باوجود چند سطور لکھی ہیں۔ ادنیٰ توجہ سے معلوم ہوا کہ یہ موضوع قرآن حکیم میں بے حد مبسوط ہے۔ اور اگر سنجیدگی سے سوچا جائے تو آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی مقدس سیرت کا بہت بڑا ذخیرہ قرآن میں موجود ہے۔ میری ناقص رائے یہ ہے کہ انکارِ حدیث کی راہ دراصل قرآنِ عزیز میں صحیح فکر کے فقدان سے پیدا ہوئی ہے۔ قرآنِ حکیم کا طالب علم غور اور تدبر سے قرآن کا مطالعہ کرے تو اسے یقین آ جائے گا کہ قرآن عزیز کو کتاب اللہ اور کلام اللہ ماننے کے بعد آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے ارشادات کا انکار ممکن ہی نہیں۔ یہ بحث تو ہو سکتی ہے کہ فلاں حدیث آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کا ارشاد ہے یا نہیں؟ نیز یہ کہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے ارشادات کی چھان پھٹک کے لیے کون سے قواعد اور اصول زیادہ کارآمد ہو سکتے ہیں؟ لیکن کسی روایت کو حدیث تصور کر لینے کے بعد یہ بحث قطعی بے جا ہے کہ آیا حدیث حجت ہے یا نہیں؟ ائمہ حدیث کی دور اندیشی: حدیث کی تنقید میں ائمہ حدیث اور فقہاءِ اسلام نے بڑی وسعت سے کام لیا ہے۔ روایت،
Flag Counter