Maktaba Wahhabi

277 - 676
ہے۔ آپ نے اور آپ سے پہلے بھی بعض بزرگوں نے ’’درایت‘‘ کا نام لیا، مگر اس کی اساسی حیثیت کیا ہے؟ اس کا تذکرہ نہ ان حضرات نے کیا نہ آپ نے۔ بلکہ آپ خود بھی اس پر مطمئن نظر نہیں آتے۔ غرض حدیث اور فنِ حدیث کی مولانا نے جس قدر حوصلہ افزائی کی، ازراہِ عنایت کی تھی اور پھر اس کی عمارت آپ ہی کے مبارک ہاتھوں سے پیوند خاک بھی ہو گئی، اور جناب ہی کے قلم سے منکرینِ حدیث کا کیس مضبوط ہو گیا۔ وما هي بأول قارورة كسرت! تیسرا حصہ: اس حصہ میں مولانا نے فقہاءِ اسلام کی بہت تعریف فرمائی۔ ان کو حق دیا کہ محدثین کے اصول کا تقاضا چاہے کچھ ہو، مگر فقہاء کو حق پہنچتا ہے کہ وہ ضعیف پر عمل کریں، مرسل کو ترجیح دیں، منقطع کو قبول کریں۔ مولانا یہاں قادیانی شاعری کا لبادہ زیب تن فرماتے ہیں۔ فقہ کا تعارف اس انداز سے کراتے ہیں: ’’اس کی روح روح محمدی میں گم ہو جاتی ہے، اس کی نظر بصیرتِ نبوی کے ساتھ متحد ہو جاتی ہے، اس کا دماغ اسلام کے سانچے میں ڈھل جاتا ہے۔‘‘ (تفہیمات، ص: 324) پھر فرماتے ہیں: ’’اس مقام پر پہنچ جانے کے بعد انسان اسناد کا زیادہ محتاج نہیں رہتا، وہ اسناد سے مدد ضرور لیتا ہے مگر اس کے فیصلے کا مداوا اسناد پر نہیں ہوتا۔ وہ بسا اوقات ایک غریب، ضعیف، منقطع السند، مطعون فیہ حدیث کو بھی لے لیتا ہے، اس لیے کہ اس کی نظر اس افتادہ پتھر کے اندر ہیرے کی جوت دیکھ لیتی ہے۔‘‘ الخ (ص: 324) فقہائے اسلام کے مقام کی رفعت میں کلام نہیں، لیکن ’’مسلک اعتدال‘‘ کے آخری صفحات میں جو کچھ فرمایا گیا ہے، قطعی بے دلیل ہے اور محض شاعری۔ معاملہ صرف طریقِ فکر کے اختلاف کا ہے، نہ کوئی ہیرا ہے نہ جوت۔ مگر یہ محل جو شاعرانہ پرواز سے تعمیر ہوا تھا، اسے بھی بالآخر پیوندِ خاک فرماتے ہیں۔ ارشاد ہوتا ہے: ’’یہ چیز چونکہ سراسر ذوقی ہے اور کسی ضابطہ کے تحت نہیں آتی، نہ آ سکتی ہے، اس لیے اس میں اختلاف کی گنجائش پہلے بھی تھی اور اب بھی ہے اور آئندہ بھی رہے گی۔‘‘ الخ (تفہیمات، ص: 324) پھر یہ ہیرے کی جوت کیسے ہوئی؟ یعنی فقہائے اسلام کا طریقِ فکر بھی ذوقی ہے، کوئی اصول نہیں۔ اب کوئی بتائے ان تیرہ صفحات میں مولانا نے ہمیں کیا دیا اور کون سی اعتدال کی راہ بتائی؟
Flag Counter