Maktaba Wahhabi

674 - 676
المختلف فيه حُدّ‘‘ 1ھ (إعلام الموقعين: 3/251 طبع منبريه) یعنی متعہ اور بیع صرف اور نبیذ کے جواز میں اہل مکہ اور علماءِ کوفہ کی تقلید درست نہیں، اسی طرح مدینہ کے بعض علماء کی تقلید مسئلہ حشوش اور ’’إتيان النساء في الدبر‘‘ میں درست نہیں، بلکہ فقہاء محدثین کا خیال ہے کہ جو شخص مختلف فیہ نبیذ پیے گا، اس کو حد لگے گی۔‘‘ ظاہر ہے تمام مسالک اور مذاہب میں بعض مسائل پوری تحقیق اور احتیاط سے تخریج کیے گئے ہیں اور بعض بالکل سطحی ہیں۔ ان میں دقت نظر ملحوظ ہے نہ احتیاط، ائمہ حدیث پر طعن سے پیشتر تمام مذاہب کی فقہوں میں ایسے امور پر غور کر لینا چاہیے، ممکن ہے شکایت کا موقعہ نہ رہے۔ بعض اہلحدیث علماء نے بھی مروجہ فقہ کی روش پر بعض کتب تصنیف فرمائیں، جیسے نواب وحید الزمان، نواب صدیق حسن خان، ان میں بھی اس قسم کا غیر محتاط مواد آ گیا ہے، جو یقیناً قابل قبول نہیں۔ یہ راہ ہی ایسی ہے جس میں لغزش کا امکان یقینی ہے، اور جہاں تک فہم و فراست کا تعلق ہے، اس میں مراتب کا تفاوت تمام طبقات میں پایا جاتا ہے، اور جہاں تک ’’تالا بند‘‘ کا تعلق ہے، اہل علم کے مختلف طبقات سے کوئی طبقہ کلیتاً محروم نہیں۔ طعن سے پہلے پورے ماحول پر غور فرما لینا مناسب ہے۔ جس فنی فقہ پر اس قدر ناز کیا جا رہا ہے، اس کا جاننا کوئی خاص خوبی ہے، نہ اس سے محرومی کوئی بڑا عیب ہے۔ فنی فقہ کے جاننے والوں میں بعض حشوی اور ظاہر پرست، بعض دقیق النظر، اسی طرح ائمہ حدیث میں دونوں قسم کے لوگ ہیں۔ یہ کوئی قانون نہیں جو آپ حضرات کے نوک قلم پر بار بار آ رہا ہے۔ آپ لوگوں کی جدید تصانیف سے ظاہر ہوتا ہے کہ آپ حضرات سے اکثر حشوی اور ظاہری ہیں۔ یہ الگ بات ہے کہ آپ کی ظاہریت فقہ کے شروح اور متون میں محصور ہے اور امام داود اور ابن حزم رحمہم اللہ کی ظاہریت قرآن و سنت تک محدود ہے! الدراية: لفظ درایت کے لغوی معنی اور متعارف معانی اور جدید اصطلاح میں فرق ہے۔ لغت میں اس کے متعدد مصادر ہیں: ’’دراه دري به يدري دريا و درية و درية و دريانا و دَريانا و دُريا و دراية وهي الأكثر في الاستعمال (ياتي) علمه أو توصل إلي علمه بضرب
Flag Counter