Maktaba Wahhabi

426 - 676
سازش کی کڑی تاریخی لحاظ سے قطعاً بے جوڑ ہے اور تاریخ کی عظیم الشان غلطی یا بہت بڑا افتراء ہے۔ یہ بالکل درست ہے کہ روایتِ حدیث میں غلطیاں ہوئیں، مگر یہ بھی اٹل حقیقت ہے کہ ان کی نشاندہی بھی محقق محدثین ہی نے فرما دی اور احادیث کی تصحیح کے لیے کئی علوم وضع فرمائے، جن کی روشنی میں حدیث کی تنقید ایک علمی مشغلہ ہے، لیکن اسے عجمی سازش کہنا بڑا ہی بدبودار جھوٹ ہے۔ ولا يفلح الكاذبون! اصحابِ صحاح کا تذکرہ: مصنفینِ صحاح کا تذکرہ چھیڑ کر مولانا موصوف نے سوال کو بے ضرورت لمبا بھی کیا ہے اور الجھا بھی دیا ہے، لیکن میں سابقہ عمومی بحث کے بعد اب کسی تفصیلی تبصرہ کی ضرورت نہیں سمجھتا۔ مولانا کا کیس بے حد کمزور ہے۔ میں سمجھتا ہوں کہ ایک ایسا آدمی جس کی زندگی کا بہت سا حصہ عدل و انصاف کی سرپرستی میں گزرا ہے، وہ یقین کرے گا کہ اس بحث میں کوئی ایجابی چیز موجود نہیں۔ پھر تیرہ سو سال کا تسلسل اور تاریخ کا تواتر بھی اس تہمت کے خلاف ہے، کیونکہ جیسا کہ اوپر بھی عرض کیا گیا ہے کہ ان تیرہ صدیوں میں ’’عجمی سازش‘‘ کا شبہ تک کسی کو نہیں گزرا۔ چند نکات: میں ائمہ حدیث اور مصنفین صحاح کے متعلق صرف چند نکات عرض کرنا چاہتا ہوں: (1) ان سب حضرات نے فن حدیث کی خدمت کا مشغلہ عموماً بچپن میں شروع کیا، چنانچہ امام بخاری رحمہ اللہ دس سال کی عمر میں حفظ و کتابت حدیث میں مشغول ہو گئے۔ [1] معلوم ہے یہ عمر سازشوں کے لیے قطعاً غیر موزوں ہے۔ امام مسلم، نسائی، ترمذی، ابو داود، ابن ماجہ کا بھی یہی حال ہے۔ ان کے تذکرے کتبِ رجال میں ملاحظہ فرمائیں۔ ناظرین کے ملال طبع کا خطرہ نہ ہوتا، تو میں اس دلچسپ حصہ کو بسط سے لکھتا۔ یہ تذکرہ ’’عجمی سازش‘‘ کے فسانہ کو قطعاً ختم کر دیتے ہیں۔ (ملاحظہ ہو: مقدمة فتح الباري: 2/193 و مقدمه تحفة الأحوذي وغيره) [2] (2) ان حضرات کا میل ملاپ پوری عمر علماء ہی سے رہا۔ عملی سیاسیات میں کبھی حصہ نہیں لیا، بلکہ عمر
Flag Counter