Maktaba Wahhabi

186 - 676
کسی کی موت پر دعا کرنا یا اس کی قبر پر جانا معاشرتی معاملات میں سے ایک معمول ہے۔ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے اسی معمول کے مطابق بعض منافقین پر نوازش فرمائی۔ اس پر ارشاد ہوا کہ فاسق مزاج اور معصیت پیشہ لوگوں کے ساتھ یہ معاملہ نہیں ہونا چاہیے۔ شہری زندگی میں کسی کے جنازے پر جانا، تعزیت کرنا معمولی بات ہے، بلکہ تبلیغی مصالح کے لیے ایک حد تک جاذب بھی۔ لیکن آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم –فداہ ابی و امی – کو منافقین کی حد تک اس اخلاقی رعایت سے بھی روک دیا گیا۔ اس سے معلوم ہوتا ہے کہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے یومیہ معمولات پر کس قدر نظر رکھی گئی تھی۔ چوتھا واقعہ: ڈسپلن اور نظم فوجی زندگی کی روح ہے، لیکن اس کا تمام تر تعلق محکمانہ ہوتا ہے۔ ایسے معاملات میں خارجی مداخلت نظم کے منافی سمجھی جاتی ہے۔ غزوہ تبوک سے کچھ لوگ پیچھے رہ گئے۔ ان میں اکثر منافق تھے۔ ان کو یقین تھا کہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم اس جنگ سے بخیریت واپس نہیں لوٹیں گے، کیونکہ ایک مضبوط اور باقاعدہ جنگی قوت سے متصادم ہو گا اور ان کے خیال میں آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے لشکر کی جنگی استعداد ان سے ٹکر لینے کے قابل نہ تھی۔ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم وہاں سے بخیریت واپس آئے اور منافقین کے خیالات غلط ثابت ہوئے تو منافقین نے اپنی غیر حاضری کے متعلق غلط عذر تراشنے شروع کیے، قسمیں کھائیں اور آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کو یقین دلایا کہ وہ اس غیر حاضری میں واقعی معذور تھے۔ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے ان کے عذر قبول فرما کر انہیں معافی دے دی، لیکن اللہ تعالیٰ نے اس قدر جلد معافی دینا پسند نہیں، فرمایا: ﴿عَفَا اللّٰه عَنكَ لِمَ أَذِنتَ لَهُمْ حَتَّىٰ يَتَبَيَّنَ لَكَ الَّذِينَ صَدَقُوا وَتَعْلَمَ الْكَاذِبِينَ﴾ (التوبہ: 43) ’’اللہ تعالیٰ نے تمہیں معاف فرما دیا، تم نے اس قدر جلدی انہیں کیوں اجازت دے دی؟ سچے اور جھوٹے کا نکھرنا ضروری تھا۔‘‘ یہ چار واقعات ہیں جن کا زندگی کے مختلف پہلوؤں سے تعلق ہے اور بہت حد تک یہ واقعات دنیوی امور سے متعلق ہیں۔ جب ان کے متعلق قطعی اور حتمی ہدایات دی گئی ہیں تو خالص دینی اور تعبدی امور میں آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے معمولات پر کیونکر نظر نہ ہو گی؟ اس سے واضح ہوتا ہے
Flag Counter