Maktaba Wahhabi

554 - 676
ڈالیے، وہاں بھی اخبار آحاد اور ظنون پر کس قدر اعتماد فرمایا گیا ہے؟ حالانکہ وہاں بھی صدق و کذب کا احتمال موجود تھا۔ (1) حضرت موسیٰ علیہ السلام مصر سے مدین تشریف لے گئے۔ مدین کے قریب دو لڑکیاں بکریاں روک کر پانی کے پاس کھڑی تھیں۔ حضرت موسیٰ علیہ السلام کی دریافت پر انہوں نے کہا کہ ہمارا باپ بوڑھا ہے اور ملازم کوئی نہیں۔ حضرت نے اسی خبر واحد پر یقین فرما کر ان کی امداد فرمائی اور پانی پلا دیا۔ یہ خبر واحد تھی، جس پر یقین کیا گیا۔ (2) لڑکیاں چلی گئیں، تھوڑی دیر کے بعد ایک لڑکی آئی۔ اس نے کہا: میرے والد تمہیں بلاتے ہیں، حضرت موسیٰ ایک لڑکی کے پیغام پر اس کے ساتھ ہو لیے۔ (3) حضرت موسیٰ نے لڑکیوں کے والد سے اپنی سر گذشت کہہ سنائی۔ انہوں نے صحیح سمجھ کر فرمایا: ﴿ لَا تَخَفْ ۖ نَجَوْتَ مِنَ الْقَوْمِ الظَّالِمِينَ [1] ’’ڈرنے کی کوئی بات نہیں، اب ظالموں کی گرفت سے کوئی خطرہ نہیں۔‘‘ (4) حضرت یوسف علیہ السلام کے بھائی راشن لینے کے لیے کنعان سے مصر گئے۔ کنعان کے واقعات سن کر انہیں راشن دے دیا گیا، یہ خبر واحد ہی تھی۔ (5) حضرت یوسف علیہ السلام نے عزیز مصر سے اپنی بریت کے متعلق جو کچھ کہا، اس کی تائید ایک دوسرے شاہد نے کی اور تصدیق کر لی گئی۔ [2] (6) حضرت موسیٰ علیہ السلام نے ایک اسرائیلی کی مدد فرمائی، جب اس نے اپنی مظلومیت کا تذکرہ کیا۔[3] اس قسم کی ہزاروں مثالیں مل سکتی ہیں، جس سے سمجھا جا سکتا ہے کہ یہ ظن یقین کی صورت میں بدل گیا اور اس کے تقاضوں پر بے خطر عمل کیا گیا۔ زمانہ نبوت میں اس ظن کی حیثیت: آنحضرت نے صلح حدیبیہ کے بعد طریقہ تبلیغ کو بدل دیا۔ اس سے پہلے اسلام کی اشاعت کا
Flag Counter