Maktaba Wahhabi

613 - 676
(3) فاطمہ بنت قیس رضی اللہ عنہ نے مطلقہ ثلاثہ کے متعلق اپنا ذاتی واقعہ بتایا کہ سکنیٰ اور نفقہ نہیں ملنا چاہیے۔ حضرت عمر رضی اللہ عنہ نے فرمایا: ’’لا ندري أنسيت أم حفظت‘‘ [1] اس قسم کے بیسیوں اہم واقعات ہماری زندگی میں آتے ہیں، جو ذہن سے اتر جاتے ہیں۔ اقرباء اور اعزہ کی موت، پیدائش، نکاح ایسے اہم واقعات ذہن سے اتر جاتے ہیں۔ یہ روز مرہ کا تجربہ ہے۔ کسی واقعہ کی صحت کے لیے اس کی تاریخ، مقام، وقت کا تذکرہ کوئی شرط نہیں۔ یہ آپ کی خود ساختہ درایت ہے، جو تجربہ کی کسوٹی پر صحیح نہیں اتر سکتی۔ قرآن عزیز نے آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم پر تہمت کا ایک واقعہ ذکر فرمایا ہے: ﴿وَمَا كَانَ لِنَبِيٍّ أَن يَغُلَّ ۚ وَمَن يَغْلُلْ يَأْتِ بِمَا غَلَّ يَوْمَ الْقِيَامَةِ﴾ (آل عمران: 161) ’’نبی چوری نہیں کرتا، جو چوری کرے گا، وہ قیامت کے دن چوری سمیت آئے گا۔‘‘ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی ذات پر تہمت لگی، نہ لڑائی کا ذکر، نہ تاریخ کا بیان۔ یہ کیسے ممکن ہو گیا؟ نہ شخص کا ذکر جس نے تہمت لگائی!! عمادی صاحب! یہ عجمی قرآن پر بھی ہاتھ صاف کر گئے، سازش کامیاب ہو گئی۔ اتنے اہم واقعہ کی تاریخ تک نہیں بتائی، کہیں یہ آیت بھی موضوع تو نہیں؟! معلوم ہے قراء سبعہ میں سے پانچ عجمی ہیں۔ آپ کے اس قانون سے قرآن عجمیوں کی نذر ہو رہا ہے۔ آپ کے پہلے قاعدہ میں ایک بھی عقل و درایت کی بات نہیں، جس پر کوئی غور کی زحمت کرے۔ رہی آپ کی توجیہ کہ منافقین نے اس وقت غزوے کا نام لینا مناسب نہیں سمجھا، اسے دوسرے وقت پر ڈال دیا۔ وہ آپ کے بھائی ہیں اور ہم مذہب، غالباً آپ کے مشورہ سے ایسا کیا ہو گا اور آپ کو بتا دیا! دوسرا شبہ: تمنا صاحب نے دوسرا شبہ پیدا کیا ہے کہ خالی محمل اونٹ پر کیسے رکھا گیا؟ ساربانوں کو یہ
Flag Counter