Maktaba Wahhabi

643 - 676
’’ولهذا كان أكثر متون الصحيحين مما يعلم علماء الحديث علما قطعيا أن النبي صلي اللّٰه عليه وسلم قاله، تارة لتواتره عندهم، و تارة لتلقي الأمة له بالقبول‘‘ (فتاويٰ ابن تيميه: 1/409) ’’صفاتِ رواۃ کی بناء پر صحیحین کے اکثر متون کے متعلق قطعی علم ہے کہ یہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کا ارشاد گرامی ہے۔ یہ قطعیت کبھی تواتر کی وجہ سے ہوتی ہے، کبھی امت کی قبولیت کی وجہ سے ۔۔ الخ۔‘‘ بلکہ اگر خبر واحد کو بھی امت کی طرف سے قبولِ عام حاصل ہو جائے، تو ائمہ اربعہ اور اشاعرہ کے نزدیک موجب علم ہو گی۔ (ابن تیمیہ، حوالہ مذکورہ) منکرین حدیث کا اصل یہ ہے کہ فرامین نبوی کو شرعاً حجت ہی نہیں مانتے۔ مولوی اسلم جیراج پوری اور تمنا عمادی وغیرہ عموماً بحث پھیلانے کے لیے فنی مباحث کو لے آتے ہیں۔ پرویز وغیرہ اسے پرانا طریقہ سمجھتے ہیں۔ یہ حضرات اپنی عقلوں کو احادیث کی تنقید کے لیے معیار سمجھتے ہیں۔ تفسیر قرآن کے لیے ان کے ہاں معیار صحت وہ ہفوات ہیں جو ان حضرات کے قلم سے ٹیک جائیں! ایک معیار: منکرین حدیث کہا کرتے ہیں کہ صداقت کا سب سے بڑا معیار واقعات ہیں۔ اگر کوئی چیز واقعات کے مطابق ہے، تو اس سے بڑی کوئی سند نہیں۔ اگر یہ معیار درست ہے تو حدیث کی صداقت کے لیے اس روشنی میں غور کرنا چاہیے۔ حدیث میں آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی دو پیش گوئیاں اہل قرآن کے متعلق منقول ہیں، جو پوری کی پوری درست ہوئی ہیں: (1) ابو رافع، مقدام بن معدیکرب اور عرباض بن ساریہ کی یہ حدیث مسند احمد، ابو داود، ترمذی، ابن ماجہ، بیہقی، دارمی وغیرہ سب کتب حدیث میں مروی ہے: ((اَ أُلْفِيَنَّ أَحَدَكُمْ مُتَّكِئًا عَلَى أَرِيكَتِهِ يَأْتِيهِ الأَمْرُ مِنْ أَمْرِي مِمَّا أَمَرْتُ بِهِ أَوْ نَهَيْتُ
Flag Counter