اور تیس کے قریب ذیلی ابواب سے اس کے مختلف پہلوؤں پر روشنی ڈالی۔ [1] مقصد یہ ہے کہ انسان اولاً واضح نصوص کا اتباع کرے اور مقاییس کی تلاش میں نہ پھرے، اور اگر ضرورت محسوس ہو، تو پھر مقیس علیہ واضح اور معلوم ہونا چاہیے۔ یعنی علتِ حکم واضح اور ظاہر ہونی چاہیے:
’’باب من شبه أصلاً معلوما بأصل مبين، وقد بين النبي صلي اللّٰه عليه وسلم حكمهما ليفهم السائل‘‘ (2/1088)
امام کا منشا یہ معلوم ہوتا ہے کہ قیاس میں اصل اور علت کو بیّن اور واضح ہونا چاہیے، محض ظن اور تخمین پر انحصار نہ کیا جائے۔ اس اصول کو پیش نظر رکھا جائے، تو قیاس کی بہت سی بے اعتدالیوں سے بچا جا سکتا ہے۔ یہی ائمہ حدیث کا مذہب ہے۔ وہ قیاس کو حجت مانتے ہیں، لیکن اس کے استعمال میں بے اعتدالی نہیں فرماتے اور نصوص کی موجودگی میں اس کی ضرورت نہیں سمجھتے۔ نہ ہی علماءِ ظاہر کی طرح اس کی ضرورت اور حجیت سے انکار فرماتے ہیں۔
كتاب الرد علي الجهميّة:
آخری مندرجہ عنوان کے تحت قریباً ساٹھ ذیلی ابواب [2] میں علماءِ کلام کے متکلمانہ مباحث کو محدثانہ سادگی سے ذکر فرمایا۔ توحید، شفاعت، استواء علی العرش، رؤیتِ باری، سمع، بصر وغیرہ صفات کا تذکرہ فرما کر ائمہ سنت کا مذہب واضح فرمایا، جس سے نئی اور پرانی بدعات سے ذہن صاف ہو جاتا ہے۔
مضمون خلافِ امید لمبا ہو چکا ہے، ورنہ اس کی تفصیل بھی دلچسپ تھی۔ اللہ تعالیٰ ہمیں مسلک حق کی حمایت اور اس کی اشاعت کی توفیق عطا فرمائے اور بدعت سے بچنے کی توفیق دے۔
ضرورت:
صحیح کے ابواب سے جہاں تک امام کے مذہب کو سمجھا جا سکتا ہے، ضرورت ہے کہ شروحِ بخاری کی اعانت سے اسے مرتب کیا جائے۔ ائمہ اربعہ کے ساتھ اتفاق اور اختلاف کو الگ کیا جائے اور
|