لیے ضروری ہو گیا، لیکن اہل ظاہر کی راہ بھی اتنی ہی غیر معتدل ہے، جس طرح فقہاء احناف کی۔ اس بے اعتدالی کی ایک دو مثالیں سن لیجیے، تاکہ ائمہ حدیث کی اعتدال پسندی کی قدر معلوم ہو سکے۔
علامہ برجندی (مشہور قاضی خاں) کے متعلق حضرت سید انور شاہ صاحب کی رائے ہے:
’’و أرفع درجة من صاحب الهداية‘‘ (فیض الباری: 1/186)
’’ان کا مقام صاحبِ ہدایہ سے بھی اونچا ہے۔‘‘
قاضی خان فرماتے ہیں:
’’رجل قال لامرأته: إن لم يكن فرجي أحسن من فرجك فأنتِ طالق، وقالت المرأة: إن لم يكن فرجي أحسن من فرجك فجاريتي حرة۔ قال الشيخ الإمام أبو بكر محمد بن الفضل رحمه اللّٰه تعاليٰ: إن كانا قائمين عند المقالة برّت المرأة، وحنث الزوج، وإن كانا قاعدين بر الزوج و حنشت المرأة، لأن فرجها حالة القيام أحسن من فرج الزوج، والأمر علي العكس حالة القعود‘‘ (قاضي خاں: 1/421، باب التعليق)
اہل علم ترجمہ پر غور فرمائیں! آخر ان قیاسات نے دین کی کون سی خدمت سر انجام دی؟ بلکہ دین مضحکہ ہو کر رہ گیا!
ایک اور مثال:
’’رجل تزوج امرأة، و طلقها من ساعة، فجاءت بولد عليٰ تمام ستة أشهر من وقت النكاح، كان الولد ولده عندنا خلافا لزفر‘‘ (قاضی خاں: 1/315)
ایک اور مثال:
’’إذا رأي الرجل امرأة تزني فتزوجها، جاز النكاح، وللزوج أن يطأها من غير استبراء ۔۔۔ الخ‘‘ (قاضی خاں: 1/309)
علماء کھینچ تان کر ان مسائل کے لیے کوئی نہ کوئی وجہ جواز تو پیدا کر لیں گے، مگر ایک حقیقت پسند مزاج ان معاذیر سے مطمئن نہیں ہو سکتا۔
امام بخاری رحمہ اللہ نے صحیح میں ’’الاعتصام بالكتاب والسنة‘‘ پہلے مستقل عنوان مقرر فرمایا
|