یوسف علیہ السلام کو خواب کی تعبیر کے صلہ میں جیل سے رہائی ملی اور اس کے ظنی عواقب کے پیشِ نظر حکومت سے سرفراز ہوئے۔ کنعان سے حضرت یعقوب علیہ السلام نے خبرِ واحد کی بنا پر مصر کے سفر کی تیاری فرمائی۔ حضرت موسیٰ علیہ السلام نے تیہ کی زندگی اس گمان پر اختیار فرمائی کہ بنی اسرائیل کو کسی وقت آرام ملے گا۔
غرض قرآنِ حکیم نے اخبارِ آحاد اور ظنی اطلاعات کو اس استناد کے ساتھ بیان فرمایا گویا اس میں وثوق اور یقین پایا جاتا ہے۔ عز بن عبد السلام نے ’’القواعد الکبریٰ‘‘ کے شروع میں وضاحت سے لکھا ہے کہ دنیا اور آخرت کے معاملات کا بہت حد تک ظن پر انحصار ہے۔ [1] اس لیے امت نے ظن کی اصطلاح استعمال فرمانے کے باوجود آحاد اور ظنیات کو دین میں اس قدر اہمیت دی ہے جس طرح ایک مستند چیز کو اہمیت دی جانی چاہیے۔ ظن کے اصطلاحی مطلب کو سمجھ لینے کے بعد یہ خیال کرنا ’’شریعت میں ظن کے لیے کوئی گنجائش نہیں۔‘‘ غلط ہے اور محض ایک وہم۔ بلکہ مظنونات کو ’’غیر ثابت شدہ‘‘ کہنا یا سمجھنا بھی غلط ہے، البتہ یہ کہا جا سکتا ہے کہ ظنیات کا مقام تواتر کے بعد ہے یا ظنون مصطلحہ تواتر سے متعارض نہیں ہو سکتے۔
فنِ حدیث اور عقل:
یہ بھی صحیح نہیں کہ احادیث کی تنقید میں درایت کو اہمیت نہیں دی گئی، یا محدثین کا نقطہ نظر اخباری تھا فقہی نہ تھا، بلکہ جہاں تک عقل اور درایت کا مقام ہے، اس کا پورا پورا احترام فرمایا گیا ہے۔ اہلِ حدیث اور فقہاء کے طریقِ فکر میں اختلاف کا یہ مطلب قطعاً نہیں کہ ائمہ حدیث تفقہ سے بے خبر تھے۔ اختلاف تو خود فقہائے عراق میں بھی موجود ہے۔ علامہ دبوسی کی ’’تأسيس النظر‘‘ سے ظاہر ہے کہ فقہاء رحمہم اللہ میں اصولی اختلافات موجود ہیں۔ یہ سب طریقِ فکر کا نتیجہ ہے۔ نہ فقہاء حدیث سے بے بہرہ ہیں نہ ائمہ حدیث فقہ سے بے خبر۔ اختلاف کی وجہ صرف طریقِ فکر میں اختلاف ہے، ورنہ درایت اور ہیرے کی جوت سے یہ جوہری کوئی بھی بے خبر نہ تھا۔ رحمهم اللّٰه رحمة واسعةً
ابن قیم رحمہ اللہ اپنے شیخ حافظ ابنِ تیمیہ رحمہ اللہ سے نقل فرماتے ہیں:
’’قال: وقد تدبرت ما أمكنني عن أدلة الشرع، فما رأيت قياساً صحيحاً، يخالف حديثاً صحيحاً، كما أن المعقول الصحيح لا
|