Maktaba Wahhabi

336 - 676
يخالف المنقول الصحيح، بل متيٰ رأيت قياساً يخالف أثرا فلا بد من ضعف أحدهما۔۔۔الخ‘‘ (إعلام الموقعين: 2/4) ’’حسبِ امکان میں نے شرعی دلائل پر غور کیا ہے۔ میں نے صحیح قیاس کو صحیح حدیث کے خلاف نہیں پایا، جس طرح عقلِ صحیح نقلِ صحیح کے کبھی خلاف نہیں ہوتی۔ جب قیاس کسی اثر کے خلاف ہوتا ہے تو ان میں سے ایک ضرور ضعیف ہوتا ہے، لیکن قیاس صحیح اور فاسد میں تمیز کرنا آسان نہیں۔‘‘ اس قسم کی صراحت امام شافعی رحمہ اللہ اور شاہ ولی اللہ سے بھی منقول ہے جسے طوالت کی وجہ سے نظر انداز کیا جا رہا ہے۔ اس سے یہ بھی ظاہر ہوتا ہے کہ قیاس اور عقل ایک چیز نہیں ہے۔ قیاس بھی عقل کے خلاف ہو سکتا ہے، اس لیے اصولِ فقہ کے قواعد کو عقلی اصول سمجھنا قطعاً غلط ہے۔ یہ اصول ایک خاص طریقِ فکر کی ترجمانی کرتے ہیں جس کی وضاحت شاہ صاحب نے حجۃ اللہ، انصاف اور عقد الجید وغیرہ میں فرمائی ہے اس لیے اصولِ فقہ کو اصولِ عقلیہ سمجھنا کم فہمی ہے اور سادگی۔ ابن جوزی رحمہ اللہ فرماتے ہیں: ’’ما أحسن قول القائل: إذا رأيت الحديث يباين المعقول أو يخالف المنقول أو يناقض الأصول فاعلم أنه موضوع‘‘ (تدريب شرح تقريب،ص: 100) ابوبکر بن طیب نے فرمایا: ’’وضع کی یہ بھی نشانی ہے کہ وہ عقل کے خلاف ہو اور اس کی کوئی توجیہ نہ ہو سکے۔ اور جو حدیث حس اور مشاہدے کے خلاف ہو وہ بھی موضوع ہو گی۔ قرآن مجید اور سنت متواتر کے خلاف ہو، یہ بھی موضوع ہو گی اور جو اجماع کے خلاف ہو اس کا بھی یہی حکم ہے۔‘‘ (تدريب الراوي، ص: 99) سخاوی نے بھی ’’فتح المغیث‘‘ میں اس کے قریب قریب ارشاد فرمایا ہے۔ [1] مولانا اصلاحی اور مودودی صاحب کے مضامین میں نقدِ حدیث کے متعلق جن نکات کی طرف توجہ دلائی گئی ہے، محدثین کی نظر اس سے بہت آگے ہے۔ یہ کس مسخرے نے آپ حضرات کو بتایا کہ محدثین نے اصولِ درایت کو نظر انداز کر دیا یا ان کا نقطہ نظر صرف اخباری تھا؟
Flag Counter