Maktaba Wahhabi

566 - 676
[1]مخاطب محترم نے حدیث کے مفہوم کی وضاحت میں علامہ طیبی کا قول اختیار فرمایا۔ تقسیم فنون میں حدیث سے مراد یہی مفہوم ہے، جسے طیبی نے ذکر فرمایا، لیکن جب ادلہ شرعیہ کا ذکر ہو اور حجیت شرعیہ کی بحث ہو، تو حدیث سے مراد صرف آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے اقوال، افعال، تقریر اور اجتہاد ہی مراد لیے جاتے ہیں۔ صحابہ، تابعین، اَتباع تابعین کے اقوال و افعال علی الاطلاق حجت نہیں، نہ ادلہ شرعیہ میں ان کا شمار کیا گیا ہے۔ اس لیے مولانا تمنا نے حدیث کا ذکر جس انداز سے کیا ہے، اس کی صحت قابل اعتراض ہے، ائمہ فن حدیث سے یہ مفہوم نہیں سمجھتے۔ اسناد اور شبہات: (1) رواۃِ حدیث میں ہر قسم کے آدمی پائے گئے ہیں، جھوٹے، وضاع، ضعیف الحفظ، اہل بدعت، اور اسی طرح ثقات، حفاظ، صلحاء اور اہل تقویٰ نے بھی اس فن کی خدمت کی ہے، اس لیے محدثین نے احادیث کو ظنی فرمایا ہے۔ (2) آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے زمانہ میں تدوین حدیث کا کام باقاعدہ نہ تھا، اس ضرورت کی طرف علماء کی توجہ کچھ عرصہ بعد میں ہوئی، اس لیے غلطی کا احتمال زیادہ ہو گیا۔ (3) محدثین کی کوششیں قابل شکریہ ہیں۔ وہ کتنی بھی کوشش فرمائیں، بہرحال وہ ایک انسانی کوشش ہے، جس پر مکمل اطمینان دشوار ہے، اس سے حدیث کی ظنیت میں کمی نہیں ہوتی۔ (4) کوفہ اور خراسان میں عجمی عصبیت نے شیعہ اور خارجی تحریکات کی صورت اختیار کی اور اپنے اپنے خیالات کی حمایت کے لیے احادیث کی وضع اور تخلیق سے بھی پرہیز نہیں کی، اس لیے حدیث کا ذخیرہ اور بھی مشکوک ہو گیا۔ صحیح اور غیر مستند احادیث میں امتیاز کرنا مشکل ہو گیا۔ قریب قریب یہی شبہات ہیں جو احادیث کے غیر مستند اور ظنی ہونے کے متعلق اجمالاً یا تفصیلاً وارد کیے گئے ہیں، جو اہل قرآن اور میرے مخاطب ایسے ’’صرف مسلمان‘‘ اس فن کے متعلق ظاہر فرماتے ہیں۔
Flag Counter