ہے۔ امید ہے حضرات منکرین حدیث اپنے فیصلہ پر نظر ثانی فرمائیں گے۔ ’’عجمی سازش‘‘ کا واہمہ ایک جھوٹ ہے، جس سے ہر عقلمند کو پرہیز کرنا چاہیے۔
انقلاب کی نفسیات:
دنیا انقلابات کا دوسرا نام ہے، اس میں ذہنی اور سیاسی انقلابات ہوتے رہتے ہیں۔ ﴿ وَتِلْكَ الْأَيَّامُ نُدَاوِلُهَا بَيْنَ النَّاسِ﴾ (آل عمران: 140) میں یہی حقیقت مستور ہے، لیکن انقلاب نظام کا مزہ نہیں کہ غیر شعوری طور پر گرنے لگیں۔ ہر انقلاب کا پس منظر ہوتا ہے، اس کے کچھ اسباب و دواعی ہوتے ہیں۔ عجمی سازش اگر واقعی کوئی حقیقت ہے تو اس کے پس منظر اور اسباب و دواعی کا علم ضروری ہے۔ محض یہ کہہ دینا کہ عجمیوں نے فتح کے بعد اس کا انتقام احادیث کی وضع و تخلیق سے لیا، بے حد بے جوڑ چیز ہے۔ دلیل اور مدعیٰ میں کوئی ربط اور تعلق نہیں ہے۔ جب کوئی قوم کسی پر غالب ہوتی ہے، تو اس کے اثرات دو طرح نمایاں ہوتے ہیں۔ اگر فاتح قوم کا اخلاق اچھا ہے، وہ مفتوح قوم سے اچھا برتاؤ کرے، تو مفتوح قومیں فاتح کی نقالی پر اتر آتی ہیں، ان کے علوم سیکھتی ہیں، ان کے رسم و رواج اپنے معاشرہ میں منتقل کرتی ہیں۔ ابن خلدون کا خیال ہے:
’’إن المغلوب مولع أبدا بالاقتداء بالغالب في شعاره وزيه ونحلته و سائر أهواله و عوائده‘‘ (مقدمه: 125)
’’مغلوب غالب کی اقتداء کے لیے مشتاق ہوتا ہے۔ اس کی وضع، شعار، مذہب اور تمام حالات میں وہ غالب کا تتبع کرتا ہے۔‘‘
اور واقعات بتاتے ہیں کہ مفتوح قومیں فاتح کی نقالی کرتی ہیں۔ عجمی فتوحات اس قسم کی تھیں۔ مسلمانوں کا برتاؤ مفتوح قوموں سے برادرانہ تھا۔ ذمیوں سے ان کا سلوک بھائیوں کی طرح تھا۔ ان حالات میں انتقام کا سوال ہی پیدا نہیں ہوتا۔ اگر فاتح کا تعلق مفتوح سے اچھا نہ ہو، فاتح ذلت آمیز انداز سے مفتوح کے ساتھ معاملہ کرے تو دانشمند اور اہل علم دل میں اس کے خلاف بغض رکھتے ہیں، سیاسی انتقام کے لیے وقت کا انتظار کرتے ہیں، لیکن عوام بہت جلد پیٹ کے دھندوں میں لگ جاتے ہیں، ان کا حافظہ کمزور ہوتا ہے۔ کبھی کوئی نمایاں شورش ہو تو عوام کے جذبات حکومت کے خلاف ہوتے ہیں، ورنہ عوام کو ضروریاتِ زندگی میسر ہوتی رہیں تو وہ کسی انتقام کے لیے آمادہ نہیں ہوتے۔
|