Maktaba Wahhabi

561 - 676
حفاظتِ حدیث کے ذرائع: حدیث کی حفاظت میں حفظ اور کتابت دونوں ذرائع استعمال کیے گئے۔ محدثین دور بھی کرتے رہے۔ اگر آپ اسے نفسیاتی نقطہ نظر سے ملاحظہ فرمائیں، تو یہ دونوں امر زائد ہیں۔ اگر یہ دونوں چیزیں زمانہ صحابہ میں نہ ہوتیں، تو بھی یہ ذخیرہ بحمداللہ غیر مشکوک ہوتا۔ آنکھوں کی دیکھی چیزیں ذہن پر مرتسم ہوتیں۔ عبارات کے حفظ سے ذہن میں ارتسام کی وہ کیفیت کبھی پیدا نہیں ہو سکتی، جو رؤیتِ بصری سے ہوتی ہے۔ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے اعمال کو دیکھنے والے اس امر کے محتاج نہ تھے کہ اس فعل کی عربی عبارت بنائیں، پھر اسے یاد کریں، تاکہ حضرت مولانا تمنا عمادی صاحب کو وہم پیدا نہ ہو۔ اواخر صدی میں جبکہ صحابہ رخصت ہو رہے تھے، یہ مرئی واقعات ان دیکھنے والوں کی زبان سے حفظ اور تحریر دونوں طریقوں سے منضبط ہو گئے۔ کتابیں مدون ہو گئیں۔ مالک، سفیان بن ثوری، محمد بن الحسن، امام شافعی، سفیان بن عیینہ، اوزاعی، ابن مبارک رحمۃ اللہ علیہم وغیرہم اہل علم تصنیف و تدوین کے میدان میں آ گئے، اس لیے قرآن عزیز کے بعد جو حفاظت ممکن تھی، وہ حدیث کو حاصل ہو گئی۔ اور وہم کا علاج تو کہتے ہیں لقمان کے پاس بھی نہ تھا، تاہم رؤیت اور حفظ کی کیفیتِ ارتسام میں جو فرق ہے، اس پر توجہ دیجیے، میرا خیال ہے کہ اس سے بہت سے شبہات دور ہو جائیں گے۔ لمن ألقي السمع وهو شهيد وضعِ حدیث کا فتنہ: تابعین کے زمانہ میں یقیناً فتنوں کا شیوع تھا۔ جھوٹ اور سیاسی رقابتوں کی گرم بازاری تھی۔ وضع و تخلیق احادیث کا مشغلہ کافی تھا، لیکن جناب یقین فرمائیں ساری دنیا بد دیانت نہ تھی۔ اہل حق موجود تھے۔ حفظ و تدوین کی حدود کو سمجھتے تھے۔ ان خطرات کو دیکھتے ہوئے ان کو وہ خرابیاں نہیں سوجھیں، جو آپ کو سوجھ رہی ہیں۔ کوفہ اور خراسان کے وضّاعین کی منظّم سازشیں ان حضرات کی نگاہ میں تھیں۔ اہل زمانہ اور ہم قرن اپنے زمانہ کے حالات، اپنے رجال، ان کے مختلف اطوار سے زیادہ واقف ہوتے ہیں۔ أهل مكة أعلم بشعابها [1]
Flag Counter