Maktaba Wahhabi

161 - 676
اسلام ہی تمہارے لیے پسندیدہ دین قرار پایا۔‘‘ اس آیت کا بظاہر حدیث کی حجیت سے کوئی تعلق نہیں۔ اس میں صرف دین کی تکمیل کا تذکرہ ہے، لیکن جب ہم کامل دین کے مختلف شعبوں کو دیکھتے ہیں۔ عبادات، معاملات، مغازی، سیر، معاشی اور بین الاقوامی مسائل پر غور کرتے ہیں تو قرآن عزیز کو ایک اصولی کتاب اور آئینی صحیفہ تصور کرنے کے بعد تفصیلات کے لیے ذہن میں تشنگی محسوس ہوتی ہے۔ اب اس تفصیل کے لیے اگر علماء کا بورڈ مقرر کیا جائے یا کسی ذہین آدمی کو مرکزِ ملت بنا کر اس کی طرف رجوع کیا جائے تو یہ پورا غیر معصوم ماحول ظنون و اوہام اور شکوک و مزخرفات کی ایک گھٹڑی ہو گی جسے ایک پاگل کے سر پر رکھ کر اسے اندھے اونٹ پر سوار کر کے مہار اس کے ہاتھ میں دے دی جائے تاکہ وہ اس موہوم امانت کو اپنی مرضی سے بانٹتا پھرے۔ كبهيمة عمياء قاد زمامها أعمي علي عوج الطريق الحائر [1] اگر یہ ظنون و اوہام دین قرار پا سکتے ہیں تو پھر خبرِ واحد نے کیا جرم کیا ہے کہ اسے ساقط الاعتبار قرار دیا جائے اور علم الاسناد نے کون سا گناہ کیا ہے کہ اس پر تابڑ توڑ حملے کیے جا رہے ہیں؟ رجال اور اصولِ حدیث ایسے معقول اور متعارف فن کو کیوں نظر انداز کیا جا رہا ہے جس نے لاکھوں آدمیوں کی زندگیاں نکھار کر رکھ دیں اور فنِ روایت و درایت کو چھان پھٹک کر دنیا کو تاریخ کے اصولوں پر تنقید کا راستہ دکھایا اور تاریخ کو قصہ گوئی کے افسانوی دور سے نکال کر ایک منقح اور مستند فن کی حیثیت دے دی؟ اب دو ہی راہیں ہو سکتی ہیں یا تو اسے کسی خاندان یا بستی کا رواجی قانون قرار دے لیا جائے اور اس کی غیر محدود وسعتوں سے آنکھیں بند کر لی جائیں یا سنت کو حجت تسلیم کر لیا جائے۔ اسلام کی وسعتیں: اگر اسلام پوری دنیا کے لیے ہے اور اس کی وسعتیں پوری کائنات پر محیط ہیں۔ وہ حقیقت ہے افسانہ نہیں اور اس کا انحصار یقینیات یا مظنونات علمیہ مستندہ پر ہے تو پھر تکمیلِ دین کے لیے سنت اور فنِ حدیث کی خدمات سے گریز ناممکن ہے۔ اس سے عبادات، معاملات، معاشیات، سیاسیات،
Flag Counter