Maktaba Wahhabi

160 - 676
ظَهْرَكَ ﴿٣﴾ وَرَفَعْنَا لَكَ ذِكْرَكَ ﴿٤﴾﴾ (الانشراح: 1 تا 4) ’’ہم نے تیرا سینہ کھول دیا اور تمہارا تمام تر بوجھ اتار دیا اور تیرے ذکر کو چار دانگِ عالم میں پھیلا دیا۔ آسانیاں اور مشکلات اس دنیا میں آتی جاتی رہیں گی۔ آپ اپنی فرصت کے اوقات میں پوری توجہ سے بارگاہِ ایزدی میں حاضری دیں۔‘‘ اس سورت میں متعدد نعمتوں کو بصیغہ استفہام ثابت فرمایا ہے جن سے ظاہر ہے کہ شرحِ صدر کے بعد وہ تمام رکاوٹیں دور ہو جائیں گی جو غلطی کا مظنہ اور موجب بن سکتی ہیں۔ اور جب وہ تمام بوجھ اتار دیے جائیں جو اس دنیا میں غلطی اور معصیت کا موجب ہو سکتے ہیں تو پھر ایسی محفوظ اور معصوم شخصیت جس کا دنیا میں اصل وظیفہ ذکرِ الٰہی اور شکر ہے، اس کے ارشادات کی حجیت ایک متدین اور عقلمند آدمی کی نظر میں کیونکر مشتبہ ہو سکتی ہے؟ اگر عام اربابِ تاریخ اور غیر معصوم علماء کی طرح اس کے اقوال پر بحث ہو سکے۔ انہیں وعظ اور ناقابلِ حجت قرار دیا جا سکے تو رفعِ ذکر کی صورت کیا ہو گی؟ اس کا ذکر تو عامۃ الناس کی طرح ٹھہرا۔ ﴿وَرَفَعْنَا لَكَ ذِكْرَكَ﴾ تو صرف وعدہ ہی رہا، اس کی عملی صورت تو واضح نہ ہو سکی۔ امت سے بھی اللہ تعالیٰ نے جن لوگوں کو شرحِ صدر کی نعمت سے سرفراز فرمایا ہے، انہیں دنیا کی قیادت سے بھی نوازا ہے اور یہ مقدس قیادت ہی دنیا کے لیے کامیابی اور سربلندی کی ضامن قرار پا سکتی ہے۔ ان عمومی القابات پر ایک نگاہ ڈالیے جن سے آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم – فداہ روحی – کو نوازا گیا اور دوسری طرف منکرینِ حدیث کی اس بے جوڑ حجت نوازی کو ملاحظہ فرمائیے کہ اس سراپا علم و دانش پیغمبر کے ارشادات امت کے لیے حجت ہی نہیں، تو آپ محسوس فرمائیں گے کہ ان دونوں مقامات میں نہ ربط ہے نہ جوڑ۔ کجا وہ رفعت کہ ذاتِ حق نے انہیں اپنے مخصوص خطاب سے سرفرازی بخشی اور کجا یہ انحطاط اور پستی کہ اس پاکباز اور مقدس شخصیت کے ارشادات کو شرعاً کوئی اہمیت ہی حاصل نہیںأين الثريا من الثريٰ و أين الخصيص الداني من السموات العليٰ۔۔؟ 16۔ ﴿الْيَوْمَ أَكْمَلْتُ لَكُمْ دِينَكُمْ وَأَتْمَمْتُ عَلَيْكُمْ نِعْمَتِي وَرَضِيتُ لَكُمُ الْإِسْلَامَ دِينًا﴾ (المائدة: 3) ’’میں نے آج تمہارے لیے دین کو کامل کر دیا اور اپنے انعامات کی بارش برسا دی اور
Flag Counter