اس سند پر اسماء الرجال کی کافی نمائش کی جا سکتی تھی، لیکن میں برادر محترم کا وقت ضائع نہیں کرنا چاہتا۔ اگر ان کو اس کی صحت پر اصرار ہوا، تو ان شاء اللہ اس اثر پر مفصل تنقید کی جا سکے گی۔ مجھے وثوق ہے اور ظن غالب کہ مولانا اس ضعف کو خوب جانتے ہیں، لیکن اگر اسے کوئی حیثیت دی جائے، تو یہی ثابت ہو گا کہ حضرت ابوبکر رضی اللہ عنہ حدیث کو حجت تصور فرماتے تھے، وہ پسند نہیں فرماتے تھے کہ ادلہ صحیحہ میں غلط اور جھوٹی احادیث خلط ہو جائیں، اس لیے جب ان پر شبہ گزرا، تو ان کو جلا دیا۔ لیکن جب کوئی صحیح حدیث سامنے آئی، تو حضرت ابوبکر رضی اللہ عنہ نے فوراً قبول فرمایا:
(1) جدّہ (دادی) نے حضرت ابوبکر رضی اللہ عنہ سے اپنے پوتے کی وراثت کا مطالبہ کیا، تو حضرت ابوبکر رضی اللہ عنہ نے فرمایا: کتاب اللہ میں تیرا کوئی حصہ نہیں۔ جب وہ چلی گئی، تو محمد بن مسلمہ رضی اللہ عنہ اور مغیرہ بن شعبہ رضی اللہ عنہ نے بتایا کہ جب کوئی حاجب نہ ہو، تو جدّہ کو چھٹا حصہ ملے گا۔ حضرت ابوبکر رضی اللہ عنہ نے دادی کو بلا کر اسے حصہ دلوایا۔ [1]
(2) حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا سے آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے کفن کی بابت دریافت فرمایا اور قبول کیا۔
(3) حضرت فاطمہ رضی اللہ عنہا نے جب آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی میراث کے متعلق مطالبہ فرمایا، تو حضرت ابوبکر رضی اللہ عنہ نے یہ حدیث سنا کر انہیں خاموش کر دیا:
’’ نَحْنُ مَعْشَر الْأَنْبِيَاءِ لَانرث وَلَا نُورَثُ، مَا تَرَكْنَا فَهُوَ صَدَقَةٌ ‘‘ [2]
’’انبیاء کا ترکہ صدقہ ہوتا ہے۔‘‘
اس لیے یہ سمجھ لینا چاہیے کہ انکار اور چیز ہے اور تثبت اور چیز۔ تثبت سنت ہے اور انکار کفر۔ شتّان بينهما
حضرت عمر رضی اللہ عنہ اور عمل بالحدیث:
اس باب میں حضرت عمر رضی اللہ عنہ کا نام بڑے وثوق سے لیا جاتا ہے۔ ان کے تشدد اور تثبت فی
|