الروایہ کا تذکرہ چٹخارے لے لے کر بیان کیا جاتا ہے۔ اس لیے مناسب ہے کہ حضرت عمر رضی اللہ عنہ کا مسلک وضاحت سے ذکر کر دیا جائے۔
عَنْ عُمْرُ بْنِ الْخِطَاب: ’’سَيَأْتِي نَاسٌ يُجَادِلُونَكُمْ بِشُبُهَاتِ الْقُرْآنِ ، فَخُذُوهُمْ بِالسُّنَنِ ، فَإِنَّ أَصْحَابَ السُّنَنِ أَعْلَمُ بِكِتَابِ اللّٰه عَزَّ وَجَلَّ ‘‘ (موافقات: 4/9، أيضاً: مختصر جامع لابن عبدالبر: 2/193) [1]
’’تمہیں ایسے لوگوں سے سابقہ پڑے گا جو قرآن کے مشتبہات پر بحث کریں گے۔ ان پر احادیث سے گرفت کرو، اہل حدیث قرآن کو بہتر سمجھتے ہیں۔‘‘
شاطبی رحمہ اللہ فرماتے ہیں:
’’صرف کتاب اللہ پر انحصار ان لوگوں کا خیال ہے۔ جن کو ایمان سے حصہ نہیں ملا۔ ان کا اعتماد ہے کہ کتاب اللہ ہر چیز کا بیان ہے۔ ان لوگوں نے سنت کو ترک کر دیا، اس کا نتیجہ یہ ہوا کہ جماعت سے الگ ہو گئے اور کتاب اللہ کو بھی نہ سمجھ سکے۔‘‘ (موافقات: 4/8)
مندرجہ واقعات سے ثابت ہو گا کہ حضرت عمر رضی اللہ عنہ حدیث کو حجت سمجھتے تھے یا نہیں؟
(1) ’’حديث استيذان‘‘ دوسرے گھر میں داخل ہونے کے لیے آواز دینا چاہیے۔ محمد بن مسلمہ رضی اللہ عنہ کی شہادت سے قبول فرمایا۔ [2]
(2) یہودونصاریٰ کی جزیرۃ العرب سے جلا وطنی کا فیصلہ حدیث کی بنا پر ہوا۔ [3]
(3) وبا زدہ علاقے میں داخل ہونے سے رک گئے، جب عبدالرحمان بن عوف رضی اللہ عنہ نے اس حدیث کا ذکر فرمایا۔ [4]
|