Maktaba Wahhabi

459 - 676
انساب کی حیثیت: ان تصریحات کے بعد مناسب ہو گا کہ اسلام میں نسب کی اہمیت پر غور کر لیا جائے۔ قرآن عزیز نے نجات کا مدار تقویٰ پر رکھا ہے، شعوب و قبائل کو صرف باہمی تعارف کا ذریعہ قرار دیا ہے۔ [1] وطنیت کی حیثیت بھی شرعاً ایسی ہی ہے۔ کوئی عرب ہو یا عجمی اس نسبت کی وجہ سے نہ قابل نفرت ہے اور نہ مستحق محبت، نہ سارے عرب متقی ہیں، نہ سارے فارسی وضع و تخلیق کے عادی۔ فارس میں بھی ایسے پاکباز لاکھوں تک پہنچتے ہیں، جن پر اسلام فخر کرتا ہے اور عرب میں ہزاروں کی تعداد میں ایسے لوگ مل سکتے ہیں، جن کے اعمال سے مسلمان اور اسلام سرنگوں ہیں۔ علم الانساب تمام تر ظنی اور مشکوک ہے اور ہمیشہ مشکوک رہا ہے۔ پانچ فی صدی بھی ایسے آدمی نہیں جو اپنے نسب سے پانچ دس پشت سے صحیح طور پر واقف ہوں۔ ہمارے ملک میں بھی نسب کے متعلق بعض ایسی قوموں پر اعتماد کیا گیا ہے جو قطعاً غیر مستند ہیں۔ علم رجال کی شرائط پر اگر ان لوگوں کی چھان پھٹک کی جائے، تو ان راویوں کی قیمت خود بخود واضح ہو جائے گی۔ عرب میں خاندان کے بعض افراد اپنے خاندان کے نسب کو یاد رکھتے تھے، ان کا تمام تر ذخیرہ حفظ ہی تھا، ان اقوال کی صحت پر کوئی ظنی دلیل بھی ملنا مشکل ہے۔ اس وقت سمعانی کی ’’الأنساب‘‘ اور ’’سبيكة الذهب‘‘ دو ہی کتابیں انساب کے متعلق زیادہ مشہور ہیں۔ جو لوگ خبر واحد کی ظنیت سے گھبراتے ہیں، حدیث اور آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے اعمال پر انہیں یقین نہیں، وہ علم الانساب پر کیونکر یقین کریں گے؟ اس علم کا مقام تو ظن سے بھی کہیں فروتر ہے! علامہ ابن خلدون رحمہ اللہ نے اپنی کتاب کی پہلی جلد کے ابتدائی صفحات میں انساب کی افادی حیثیت پر پُر مغز بحث کی ہے۔ فرماتے ہیں: ’’اقوام و امم میں نسب کا امتیاز بے حد کمزور ہے۔ مرور ایام کے ساتھ اس کے آثار بھی ناپید ہوتے جاتے ہیں۔ اس سے ایک ہی قوم اور قبیلہ کے نسب میں بے حد اختلاف ہوا۔ جس قدر وقت گزرتا گیا، اسی قدر اختلاف بڑھتا گیا، اور عام اہل عالم کی انساب کا
Flag Counter