توسط سے ائمہ حدیث تک پہنچی ہیں۔ عمادی صاحب نے اپنے مضمون کے ایک حصہ میں امام کے اساتذہ کا بھی ذکر کیا ہے، فن کے لحاظ سے کسی محدث کے استاد کا ضعف یا تدلیس محدث کی ذات پر اثر انداز نہیں ہوتی اور واقع بھی یہی ہے کہ ذاتی خصائص یا ذاتی نقائص کا اثر صاحبِ خصائص کی ذات سے تجاوز نہیں کر سکتا۔
پیغمبر کے آباؤ اجداد کا کفر پیغمبر کی ذات پر موثر نہیں اور نہ پیغمبر کی عصمت سے پیغمبر کی اولاد متاثر ہو سکتی ہے۔ ﴿فَمِنْهُمْ ظَالِمٌ لِّنَفْسِهِ وَمِنْهُم مُّقْتَصِدٌ وَمِنْهُمْ سَابِقٌ بِالْخَيْرَاتِ﴾ (الفاطر: 32) یہ اصل مسلّم ہے، اس لیے رواۃ میں بھی شاگرد کا ضعف استاد پر اثر انداز نہیں ہوتا اور استاد کی ثقاہت تلمیذ کے ضعف میں کمی نہیں کر سکتی۔
حدیث پر ہر راوی کی صفات کا اثر البتہ ہو سکتا ہے، جس سے محدثین پوری طرح آگاہ ہیں اور ان صفات ہی کی بنا پر حدیث کے ضعف و سقم کا فیصلہ کیا جاتا ہے۔
عمادی صاحب نے اپنے مضمون مطبوعہ ’’طلوع اسلام‘‘ ستمبر 50ھ کے شمارہ (9) کے آخر میں امام زہری کے اساتذہ کا ذکر کیا ہے۔ پورے مضمون میں محدثانہ دیانت ناپید ہے، لیکن یہ حصہ خصوصیت کے ساتھ دیانت کے معیار سے بہت پست ہے، اور سچ یہ ہے کہ ایک منکر حدیث کو اس موضوع پر لکھنا بھی نہیں چاہیے۔ فن اور اصحابِ فن سے بغض کے بعد رجالِ فن کے تذکرہ میں دیانت کا قائم رہنا مشکل ہے۔
شبہات:
مضمون نگار نے امام زہری کے شیوخ سے پندرہ سولہ بزرگوں کے تذکرہ کو کسی قدر صراحت سے لکھا ہے۔ نو بزرگوں کا سن وفات بھی نقل کیا ہے اور سات حضرات کے سنین وفات غالباً ان کو کتب محدثین سے نہیں مل سکے، اس لیے ان کے متعلق جو جی میں آیا فرماتے گئے۔
تعجب یہ ہے کہ عمادی صاحب اس بے ضرورت طول کے باوجود یہ نہیں فرماتے کہ ان کو ان بزرگوں سے رنج کیا ہے اور وہ کون سا دکھ ہے جس کی وجہ سے اتنا قلق اور بے قراری ہے؟ بتکرار پڑھنے کے باوجود میں اس حصہ کو بے سود اور بے تعلق سمجھتا ہوں، نہ محدثانہ طور پر اس سے کوئی فائدہ ہے اور نہ ہی کوئی فقہی نکتہ!
|