Maktaba Wahhabi

118 - 676
ضعف اور صحت پر بحث کی جا سکے۔ پھر احکام کے استنباط و استخراج اور زبان کو بگاڑ سے بچانے کے قواعد بنائے گئے۔ ’’یعنی صرف و نحو، معانی، بیان وغیرہ علوم عربیہ کی بنیاد رکھی گئی۔ اس طرح ان تمام علوم نے فن اور حرفت کی صورت اختیار کر لی۔ عرب حکومت کی مشغولیت اور موروثی سادگی کی وجہ سے پیشہ وری اور صنعت و حرفت سے نفرت کرتے تھے۔ عجمی اہل علم چونکہ شہرت کے عادی تھے۔ ان کے ہاں صنعت و حرفت ایک اعزاز تھا۔ اسی لیے طبعی رجحانات کی وجہ سے تمام علوم کی سرپرستی عجمیوں کے سپرد ہو گئی اور اپنی مخلصانہ محنت اور جانفشانی کے بل بوتے پر وہ اسی اعزاز کے اہل قرار پائے۔‘‘ (مقدمہ ابن خلدون، ص: 500) نہ اس میں کوئی سازشی تھی نہ دھوکہ۔ بلکہ قدرتی تقسیم کار تھی جو خود بخود ہو گئی۔ خدا کی قدرت ہے کہ پوری بارہ صدیوں میں اکابر اور فحول اہلِ علم اس عجم خولیا سے محفوظ رہے۔ تیرھویں صدی کے اواخر میں یہ تکلیف سیکرٹریٹ کے چند پنشنر کلرکوں کو ہوئی جس کا اثر عوام پر بھی ہوا۔ اللہ تعالیٰ سب کو صحت عطا فرمائے اور عقل و دیانت سے سوچنے کی توفیق دے۔ سازش کے اثرات: عقلمند آدمی کے لیے ضروری ہے کہ اپنا معاملہ ہر پہلو سے سوچے اور خطرے کے ہر گوشہ کو کھلی کھلی نظر سے دیکھے۔ فارسی سازش کا کھٹکا ہمیں صرف اس لیے ہوا کہ ہم نے فارس کو فتح کیا۔ فارسی حکومت اس کے بعد صفحہ ہستی سے ناپید ہو گئی۔ ہم نے آج کے حالات میں دیکھا کہ مغربی حکومتیں باہم سازش کرتی ہیں۔ انتداب کے بہانے سے چھوٹی حکومتوں کو دبا لیتی ہیں اور فنی امداد کے بہانے کمزور حکومتوں میں سازشوں کے جال بچھا دیتی ہیں۔ کچھ امداد دے کر بعض اوقات لوگوں کے ایمان تک خریدتی ہیں۔ آہستہ آہستہ چھوٹے ملک ان کے سہارے پر جینے کے عادی ہو جاتے ہیں۔ آپ نے یہ سمجھا کہ خلیفہ ثانی نے جب فارسی شہنشاہیت کو تاراج کیا تو فارسیوں نے عربوں کے خلاف ضرور کوئی سازش کی ہو گی۔ یہ استدلال بظاہر واقعات پر مبنی معلوم ہوتا ہے، اس لیے تھوڑی دیر کے لیے ذہن کو اپنی طرف پھیر لیتا ہے اور عام آدمی جس کی نظر اپنی اور عام قومی تاریخ پر نہ ہو، اس سے ٹھوکر کھا سکتا ہے، لیکن آپ تھوڑی سی گہرائی میں جائیں تو آپ یقین کریں گے کہ اس استدلال میں
Flag Counter