Maktaba Wahhabi

109 - 676
منورہ، نجد، یمن اور مصر وغیرہ مختلف علاقوں کے علماء اپنے علاقوں میں درسِ حدیث دیتے رہے۔ ان علاقوں میں جو جو صحابی رضی اللہ عنہم اقامت پذیر تھے، ان کے علوم اور دروس کی اشاعت اس علاقہ میں ہی ہوتی رہی اور حفظ و کتابتِ حدیث کا سلسلہ ان علاقوں میں اپنی بساط کے مطابق بدستور جاری رہا۔ اموی، ہاشمی اور عباسی قسمت آزما پوری قوت سے نبرد آزما تھے اور اکھاڑ پچھاڑ کی تند و تیز ہوائیں پورے زور سے چل رہی تھیں، اور یہ سازشی پورے سکون سے اپنے مدارس میں حدیث کے حفظ و جمع میں مشغول تھے۔ اگر کسی سر پھرے بادشاہ کو کسی عالم پر بدگمانی ہوئی تو اسے اس نے جیل میں ڈال دیا۔ جب ظلم نے اپنا نصاب پورا کر لیا۔ قید کی مدت ختم ہو گئی تو جیل سے نکل کر اپنے مدرسہ میں آ گئے اور علم و دین کی خدمت میں مشغول ہو گئے۔ کوئی عملی قدم ان متحارب فریقوں کے موافق یا خلاف نہیں اٹھایا۔ بدگمانیاں محض اظہار خیال یا رجحان طبعی کی وجہ سے ہوئیں، حالانکہ سازشیں ایسے ہی اوقات کی منتظر ہوتی ہیں۔ دشمن پر حملہ کرنے کا بہترین وقت وہی ہوتا ہے جب دشمن دوسری طرف مشغول ہو۔ حضرت امام ابو حنیفہ رحمہ اللہ کے متعلق سیاسی دلچسپی کے بعض واقعات تاریخ کی زبان پر آتے ہیں، لیکن ان میں فارس کا یہ عظیم الشان سازشی ہاشمی اور عربی حکومت کا حامی تھا۔ آپ اس دور کی تاریخ پڑھ جائیے۔ آپ کو اہل علم پر حکومت کی چیرہ دستیوں کے واقعات تو خال خال ملیں گے، لیکن ان علماء نے حکومت کے خلاف کوئی محاذ قائم کیا ہو، اس سے تاریخ ساکت ہے۔ سازش کی پوری مسل طلوعِ اسلام کے دفتر اور علامہ جیراج پوری کے دولت کدہ میں بنی اور وہیں دھری کی دھری رہ گئی۔ اور شاید اس ساری تہمت تراشی کا پورا بوجھ یہی حضرات اپنے کندھوں پر اٹھا کر خدا کے سامنے حاضر ہوں گے۔ ﴿ وَسَيَعْلَمُ الَّذِينَ ظَلَمُوا أَيَّ مُنقَلَبٍ يَنقَلِبُونَ ﴾ (الشعراء: 227) دورِ تدوین: تیسری صدی میں جب عباسی حکومت کے قدم جم گئے، امویوں کے ساتھ ہاشمی بھی خلافت کی بساط سے غائب ہو گئے۔ چند روز خلفشار کے بعد جب ملک میں امن قائم ہوا تو ائمہ حدیث پابہ رکاب ہو گئے۔ انہوں نے زمین کی طنابیں کھینچ لیں، علم میں وطنی اور علاقائی تقسیم کو عملاً ختم کرنے کا فیصلہ کر لیا۔ سفر کے موجود اور ممکن وسائل کے ساتھ خراسان سے اقصائے مغرب تک ان
Flag Counter