Maktaba Wahhabi

544 - 676
لیے بالکل نہیں بولتے تھے۔ اس کی تفسیر و توضیح کا ان کو کوئی حق نہ تھا، نہ ہے۔ ان کے عمل کو کوئی دینی اہمیت حاصل نہ تھی، جیسے مولوی عبداللہ اور ان کے رفقاء کا خیال تھا۔ یا وہ قبول فرمائیں کہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم قرآن عزیز کے الفاظ سے الگ جو فرماتے یا کرتے تھے، اس میں خدا تعالیٰ کی مرضی اور اعانت شامل تھی، اگر بتقاضائے بشریت کوئی ایسا فعل سرزد ہوتا، جو منشائے خداوندی کے موافق نہ ہوتا۔ تو فوراً متنبہ فرما دیا جاتا۔ اس صورت میں پیغمبر کے اقوال و افعال کے متعلق ماننا پڑے گا کہ وہ خدا تعالیٰ کی وحی اور ارشاد کے مطابق ہوتے تھے۔ پھر حسان بن عطیہ رحمہ اللہ کے اثر میں اس سے زیادہ کیا تھا، جس پر محترم اس قدر ناراض ہوئے کہ اتنا بھی نہ سوچ سکے کہ یہ مرفوع حدیث ہے یا موقوف؟ میرا مقصد اس اثر سے محض اس حقیقت کی تائید ہے، جس کا تذکرہ میں نے اوپر کی سطور میں کیا ہے اور ائمہ سلف کے مذہب کا اظہار۔ بعض اہل قرآن حضرات کا خیال ہے کہ قرآن کے الفاظ کے بعد پیغمبر اپنے قول و کردار میں بالکل ہماری طرح ہے۔ ان کے خیال میں امت کے لوگ آپ سے بہتر قرآن کی تفسیر کر سکتے ہیں۔ یہ قرآن کی تعلیم کے بالکل خلاف ہے۔ سردست میں اس پر کچھ کہنا نہیں چاہتا اور نہ ہی یہ اس قابل ہے کہ اس پر کچھ کہا جائے! اثر حسان بن عطیہ کی سند: مولانا تمنا کی محنت قابل شکریہ ہے کہ انہوں نے اس کی سند کے لیے روافض تک کی کتب چھان ماریں، حالانکہ میرے مسلک کے لحاظ سے مجھ پر وہ کتابیں حجت نہیں، تاہم میں اور حدیث کا طالب علم مولانا کا ممنون احسان ہو گا۔ تحقیق کا یہ ذوق قابل صد ہزار تحسین ہے۔ اثر مذکور کے مفہوم کو میں چونکہ ایک طے شدہ اور مسلّمہ قرآنی حقیقت اور علماءِ امت میں اسے سنت مستمر سمجھتا تھا، اس لیے میں نے اسے بلا تامل نقل کر دیا اور اس لیے بھی کہ یہ کسی قدر مفصل تھا۔ آثار چونکہ انفرادی لحاظ سے حجت نہیں، اس لیے ان کی نقل میں اہل علم وہ احتیاط استعمال نہیں فرماتے، جو مرفوع احادیث کی نقل میں ان کے دامن گیر ہوتی ہے۔ ملاحظہ ہو سنن دارمی اور مصنف ابن ابی شیبہ اور معاجم، جو آثار کا بہت بڑا ذخیرہ ہیں، لیکن ان کی اسانید میں وہ وثوق نہیں، جو امہات ستہ میں عموماً پایا جاتا ہے۔
Flag Counter