Maktaba Wahhabi

322 - 676
دیں۔ امام ابو حنیفہ رحمہ اللہ اور اعمش کی چشمک کا نوحہ فرمائیں۔ اس سے اصل فن اور اس کی خوبیوں پر آخر کیا اثر پڑتا ہے اور ان مقدسین میں جن کی تعداد ہزاروں تک پہنچتی ہے، اگر سو پچاس میں کسی وقت (بشرطِ صحتِ سند) کوئی شکر رنجی یا مناقشہ ہوا بھی ہو تو پورے فن پر اس کا کہاں تک اثر پڑ سکتا ہے؟ میرا مخلصانہ مشورہ ہے کہ اول تو آپ حضرات سنت کے دفاع کی ذمہ داری لیتے ہی کیوں ہیں؟ آپ کے ہاں مولوی عبدالغفار حسن صاحب ایسے دو ایسے حضرات اور بھی موجود ہیں جو غالباً آپ کی جماعت کے مزاج اور اس کے نظم کے احترام کی وجہ سے خاموش ہو جاتے ہیں، انہیں اجازت مرحمت فرمائیے، وہ اس موضوع پر لکھیں اور اپنے ضمیر کی آواز کے مطابق لکھیں۔ جماعت کے اجتماعی مزاج سے انہیں مستثنیٰ فرمایا جائے۔ میرا خیال ہے وہ یہ فریضہ بہتر طور پر ادا کر سکتے ہیں۔ یہ فرض کفایہ اچھا ہے اُن پر ڈال دیا جائے۔ آحاد کے متعلق اختلاف اور خرابی کا پہلا دور: یوں تو زمانہ نبوت ہی میں ایسا عنصر موجود تھا جو آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی تفصیلی ہدایات، تربیت اور آپ کے احتساب سے گھبراتا تھا۔ کبھی غنائم کی تقسیم کے سلسلہ میں ذہن نمایاں ہوتا: ((إن هٰذه القسمة ما أريد بها وجه اللّٰه )) [1](أحمد) کبھی آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی طرف غلول کی نسبت کرتے۔ مختلف طور پر وہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم سے تنفر پیدا کرنے کی کوشش کرتے۔ ﴿رَأَيْتَ الْمُنَافِقِينَ يَصُدُّونَ عَنكَ صُدُودًا﴾ (النساء: 61) منافق آپ کی خدمت میں آنے سے گھبراتے اور بدکتے ہیں، لیکن دانش مند اور سلجھی ہوئی طبائع کی موجودگی میں اس ذہن کو ابھرنے کی توفیق نہ مل سکی۔ حضرت علی رضی اللہ عنہ کی خلافت میں ان لوگوں کو کچھ کھل کر کہنے اور اجتماعی طور پر شرارت کرنے کا موقع ملا۔ اس کی تفصیل احادیث اور ادب کی کتابوں میں ملتی ہے۔ اس ذہن کی تنظیم: لیکن دوسری صدی میں معتزلہ کی وجہ سے اس ذہن نے ایک باقاعدہ اور اصلی شکل اختیار کر لی، مگر خوارج اور یہ حضرات کھل کر حدیث کا انکار نہ کر سکے۔ فضائلِ اہلِ بیت کا انکار خوارج نے کیا اور احادیثِ صفات کا انکار حضرات معتزلہ نے کیا اور احادیثِ مناقب کا انکار شیعہ نے کیا۔ اس کے
Flag Counter