ادارہ طلوعِ اسلام کے بعد ادارہ ثقافتِ اسلامیہ:
انکارِ حدیث کے بعد ملک میں دو جماعتیں آپ کے سامنے ہیں۔ ان کا طریقِ استدلال نمایاں ہے: (1) ادارہ طلوعِ اسلام کراچی (2) اور ادارہ ثقافتِ اسلامیہ لاہور۔
ان میں اکثریت منکرینِ حدیث کی ہے۔ ان میں جو حضرات کھلے طور پر حدیث کا انکار نہیں کرتے، ان کا ذہنی رجحان انکار ہی کی طرف ہے۔ وہاں اسلام کے بنیادی حقائق کی تشریحات اس انداز سے کی گئی ہیں جس سے اسلام کے ارکان تک محفوظ نہیں رہ سکے۔ نہ نماز موجود ہے نہ روزہ، نہ حج ہے نہ زکوٰۃ، نہ توحید سلامت ہے، نہ رسالت، نہ قیامت ہے اور نہ جزا اور سزا۔ پورا اسلام قریباً دنیا پرستی کا دوسرا نام ہو گیا ہے۔ ملاحظہ ہو رسالہ ’’اسلام کی بنیادی حقیقتیں‘‘ مصنفہ خلیفہ عبدالحکیم۔ ’’مقام حدیث‘‘ از سید جعفر شاہ، اور ’’نظامِ ربوبیت‘‘ از پرویز وغیرہ۔
آج سے صدیوں پیشتر سنت اور حدیث کی حمایت میں ہم جہاں کھڑے تھے، ائمہ حدیث کے حملوں نے معتزلہ، خوارج اور دوسرے مبتدع فرقوں کو شکست پر شکست دی تھی، ہمارے اسلام کی تعمیری اور تخریبی مساعی نے اہل بدعت کو ناکام کرایا تھا، مولانا نے تعریف میں جو سکیڑ اور نقباض پیدا فرمایا ہے، اس کا مطلب تو یہ ہو گا کہ ہم اپنے دعویٰ کے بہت سے حصوں سے خود ہی دستبردار ہو گئے۔ اگر ہماری ان فکری قیادتوں کی گریز پائی کا یہی حال رہا تو ہمیں اپنی شکست کا اعتراف کرنا چاہیے۔ ہم آحاد کے قیمتی ذخیرہ سے خود بخود دست کش ہو گئے۔ یہ غیر محتاط احتیاط قلتِ مطالعہ کا نتیجہ ہے یا جبن اور بزدلی کا؟ اللّٰه مَّ إِنِّيْ أَعُوْذُبِكَ مِنَ الْجُبْنِ
(8) اس تعریف سے شاید وہ مقصد بھی حاصل نہ ہو جس کے لیے یہ سکیڑ اور انقباض اختیار کیا گیا۔ میرا خیال ہے کہ اہل قرآن سے پرویز پارٹی شاید وقتی طور پر کسی قدر الفاظ کے ہیر پھیر سے آپ کے ساتھ اتفاق کرے۔ غالباً ان کے انکارِ حدیث اور آپ کے اقرارِ حجیت سنت پر اس تعریف کے بعد کوئی نمایاں اثر نہیں پڑتا، کچھ اعتباری سا امتیاز رہ جائے گا۔
مقام بحث سے انحراف:
(9) اس قسم کی تعریف مقام بحث سے ایک گونہ انحراف ہے۔ محل نزاع سنت کا وہی مفہوم ہے۔ جس کا ذکر مختلف اہل علم کی مصنفات سے اوپر کیا گیا ہے۔ اس کا مطلب یہ ہو گا کہ ہم نے
|