کی تعلیم جماعت اسلامی کو دینا اس وقت پیشِ نظر ہے۔
(3) اور یہ بھی ظاہر ہے کہ سنت کے متعلق یہ مولانا کی اصطلاح ہے، عام طور پر لوگ اسے ملحوظ خاطر نہیں رکھتے۔
(4) مولانا کی نگاہ میں کسی دوسرے مفہوم پر سنت کا اطلاق درست نہیں۔ سنت کا منظوق ’’صرف‘‘ یہی ہے۔ (حالانکہ مولانا اس مفہوم میں پوری امت سے مختلف ہیں) جہاں تک میرا یقین ہے مولانا نہ منکرینِ حدیث ہیں نہ ان کو سنت سے انکار ہے، لیکن مولانا نے جس انداز سے بحث کا آغاز فرمایا ہے اس سے چور دروازے کھل سکتے ہیں اور منکرینِ حدیث کو اس سے کافی مدد مل سکتی ہے۔
(5) مولانا نے سنت کی تعریف کو اس قدر سکیڑ دیا ہے کہ اس کا تعلق چند اعمال سے ہی ہو گا، جن کا ثبوت آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم سے علی سبیل الاستمرار ہے، جیسے نماز کے بعض ارکان، لیکن اقدارِ زکوٰۃ وغیرہ کے لیے شاید پھر خبرِ واحد ہی کا سہارا لینا پڑے۔
(6) ہزار دفعہ فرمایا جائے کہ ’’اگر کوئی شخص اس (سنت) کو ماخذِ دین تسلیم نہیں کرتا تو میں اس کو مسلمان تسلیم نہیں کرتا۔‘‘ سوال یہ ہے کہ اس ’’سنت‘‘ کی پہنائی ہے کہاں تک؟ اس کا احاطہ چند اعمال سے آگے نہیں بڑھے گا۔ پورا اسلام تو کسی دوسری جگہ سے ہی ثابت کرنا ہو گا۔ پھر اس ادعا کی ضرورت ہی کیا ہے؟
(7) دعویٰ یہ ہے کہ اسلام زندگی کے تمام گوشوں میں رہنمائی کے فرائض انجام دیتا ہے، لیکن جناب کی پیش کردہ تعریف کے لحاظ سے تو اس کا دائرہ اس قدر تنگ ہو گا کہ زندگی کے بعض اہم گوشے بھی شاید اس کی رہنمائی سے خالی رہیں۔ سیاسی اور معاشی امور میں راہنمائی تو بڑی بات ہے، عبادات اور معاملات میں بھی ہمیں اسلام کی راہنمائی سے مرحوم ہونا پڑے گا۔ اخبارِ آحاد کے ساتھ معتزلہ کی طرح اگر سوتیلی ماں کا سا سلوک جاری رہا تو جہاد، تقسیم غنائم، جزیہ، محاربات ایسے اہم مسائل اور اسی قسم کے اکثر بین الاقوامی مسائل میں ہم اسلام کی رہنمائی سے محروم ہو جائیں گے اور تکمیلِ دین ایک ایسا خواب ہو کر رہ جائے گا جس کی کوئی تعبیر نہیں۔ قرآن عزیز اور سنن متواترہ کے ساتھ اہل قرآن کی طرح اگر ضروری احکام کشید کرنے کی کوشش کی گئی تو استدلال کا جو انداز اختیار کرنا پڑے گا، اس کی حیثیت سیاسی جوڑ توڑ سے زیادہ بہتر نہیں ہو گی۔
|