Maktaba Wahhabi

625 - 676
صحابہ رضی اللہ عنہم وہاں آئیں گے، پھر مدینہ کے قریب ہونے کی وجہ سے کچھ زیادہ گھبراہٹ بھی نہ تھی۔ یہ دارالحرب نہ تھا، جہاں آبرو خطرہ میں ہوتی، یقیناً اس ماحول کے لوگ مسلمان تھے یا اسلام سے مانوس۔ صفوان نہ بھی ملتا تو علاقہ کے لوگ حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا کو ضرور پہنچاتے، اس لیے فی الواقعہ گھبراہٹ کی کوئی بات نہ تھی، البتہ تخلف کا طبیعت پر اثر ہو گا۔ پہنچنے کے اسباب کے ظاہری فقدان کا فکر ضرور تھا، ایسے وقت اونگھ اور غنودگی بالکل فطری چیز ہے۔ عمادی صاحب! کبھی کبھی قرآن پڑھا کیجیے: ﴿ إِذْ يُغَشِّيكُمُ النُّعَاسَ أَمَنَةً مِّنْهُ وَيُنَزِّلُ عَلَيْكُم مِّنَ السَّمَاءِ مَاءً لِّيُطَهِّرَكُم بِهِ ﴾ (الأنفال: 11) ﴿ ثُمَّ أَنزَلَ عَلَيْكُم مِّن بَعْدِ الْغَمِّ أَمَنَةً نُّعَاسًا يَغْشَىٰ طَائِفَةً مِّنكُمْ ۖ ﴾ (3/154) [1] عین ہنگامہ کارزار میں اہل ایمان پر نیند اور اونگھ مسلط فرما دی گئی۔ عمادی صاحب! فکر کیجیے، قرآن پر بھی عجمی ہاتھ صاف کر گئے۔ لالہ زار زمین جس پر نعشوں کے ڈھیر لگے ہوئے ہیں، مومن آرام فرما رہے ہیں۔ فرمائیے! یہ آیت تو موضوع اور مکذوب نہیں؟ آپ کے خیال میں انہیں ماتم کرنا چاہیے تھا! دہم: پھر نماز کا ذکر چھیڑا ہے اور پہلے (8، 9) میں نماز نہ پڑھنے کی خود تردید کی ہے، مگر گمشدگی کی صبح کے متعلق فرماتے ہیں: ’’بلکہ فجر کی نماز تک نہیں پڑھی۔‘‘ خدا جہالت سے بچائے، عدمِ ذکر سے عدم وجود کہاں ثابت ہوا؟ یقیناً حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا نے نماز پڑھی ہو گی، ترک کا احتمال ہی نہیں اور نہ ذکر کی ضرورت تھی۔ 7، 8، 9، 10 میں تکرار محض ہے اور طول کلام۔ عمادی صاحب نے اس مضمون میں ائمہ حدیث کو خبیث، منافق، بے دین، بے نماز، بہتان تراش، چالاک، وضاع، کذاب، خبیث النفس وغیرہ قسم کی گالیاں دی ہیں۔ اگر قصاص لیا گیا تو آپ کو تکلیف ہو گی، قلم سب کے ہاتھ میں ہے۔
Flag Counter