عموماً ان حضرات کی نظر میں حق و باطل کا معیار مولانا کا اندازِ فکر ہے۔ وہ کتاب و سنت سے زیادہ اپنے لٹریچر اور اپنی قیادت کی طرف دعوت دیتے ہیں۔ وہ دوسرے اہل علم کی تحقیر و تذلیل سے قطعی پرہیز نہیں کرتے، لیکن مولانا پر معمولی تنقید بھی گوارا نہیں کرتے۔ سوچنا تو بڑی بات ہے، نیک دلی سے تنقید کرنے والوں پر کیچڑ اچھالتے اور بدزبانی کرتے ہیں، اور یہ سب قادیانی خصائص ہیں۔
خود ماہر صاحب نے مجھ پر جس گھٹیا انداز سے حرف گیری کی اور جس قدر ہلکی زبان اور خفیف لب و لہجہ اختیار کیا ہے، یہ میری تائید ہے۔ ایسے پڑھے لکھے حضرات کی زبان جب بے احتیاط ہو جائے، تو عوام سے شکوہ کا سوال ہی پیدا نہیں ہوتا۔ ایسے حضرات کو ’’فالتو‘‘ شرافت کون دے؟ میں مکرر عرض کروں گا کہ ((المُسْلِمُ مِرْآةُ الْمُسْلِمِ)) [1]کی روشنی میں میری گزارش پر غور کیا جائے۔ مریض اگر معالج کے ساتھ بد زبانی کرے، تو اس سے مرض کو فائدہ نہیں ہو گا۔ آپ کے عوام میں اندھی عقیدت اور جمود، قوتِ فکر کی جگہ لے رہا ہے!
’’مُثله‘‘ یا بد حواسی؟
مولانا ماہر کی تنقید کا سارا زور اس مقالے پر ہے کہ میں نے تفهيمات (1/235) کی عبارت کو مُثله کر دیا۔ اس میں قطع و برید کی ہے۔ [2] مولانا یہاں بہت تیز ہو گئے۔ اشہبِ قلم ترقی پسند ادیبوں کے اندازِ استحقار سے بھی زیادہ پست ہو گیا ہے۔
مجھے اس اصول سے اتفاق ہے کہ کسی حوالہ میں قطع و برید اور دوسرے کے مقاصد کی تخریب واقعی علمی خیانت ہے اور دیانت داری کے منافی۔ أعاذنا اللّٰه من ذلك!
|