ہے اور معلوم ہے کہ شکوک و اوہام اہل نظر کی نگاہ میں کبھی حجیت کا مقام نہیں پا سکتے۔
اہل قرآن کو بھی اس لفظ کے استعمال کی اسی وقت جرأت ہوئی، جب انہوں نے حدیث کی حجیت سے انکار کا فیصلہ کیا۔ دراصل یہ فیصلہ دلائل کی بنا پر نہیں کیا گیا، بلکہ کسی ضرورت کی بنا پر فیصلہ کرنے کے بعد دلائل کی تلاش کی ضرورت کا احساس ہوا۔
’’وذلك دأب أهل البدعة فإنهم يقضون ثم يستدلون‘‘
’’اہل بدعت کا یہی طریق ہے کہ وہ فیصلہ کرنے کے بعد دلائل کی تلاش کرتے ہیں۔‘‘
حدیث کی ظنیت کا مفہوم:
اہل حدیث جب حدیث کو ظنی کہتے ہیں، تو وہ ظن کو عرفی معنی میں استعمال کرتے ہیں، اس لیے وہ ظن کو واجب العمل سمجھتے ہیں۔ اسی طرح ائمہ اصول نے بھی تصریح فرمائی ہے:
’’وهذا يوجب العمل ۔۔۔ وقال بعض أهل الحديث: يوجب علم اليقين، لما ذكرنا أنه أوجب العمل، ولا عمل من غير علم‘‘[1](أصول بزدوي:2/690، 691)
’’خبر واحد موجب عمل ہے اور بعض اہلحدیث کے نزدیک خبر واحد سے علم اور عمل دونوں واجب ہوتے ہیں۔‘‘
متاخرین کی تصانیف میں اصول فنی اور اصطلاحی سا ہو کر رہ گیا۔ اسے عملی زندگی پر منطبق کرنے کے لیے کافی دقت نظر کی ضرورت ہے۔ جن لوگوں نے اصول فقہ کو عمل کے نقطہ نظر سے لکھا ہے اور انہوں نے اصطلاحات کے استعمال میں منطقی طریق فکر سے زیادہ عرف اور استعمال کو پیش نظر رکھا ہے، ان میں حافظ عز الدین عبدالسلام 660ھ کی کتاب ’’قواعد الأحكام في مصالح الأنام‘‘ خاص طور پر قابل توجہ ہے۔ آپ فرماتے ہیں:
’’فصل في بيان جلب مصالح الدارين، ودرء مفاسدهما علي الظنون، الاعتماد في جلب معظم مصالح الدارين، ودرء مفاسدهما علي ما يظهر في الظنون، وللدارين مصالح، إذا فاتت فسد أمرهما، ومفاسد إذا
|